مختار احمد قریشی
استاد کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک معمار کی مانند ہوتا ہے جو طالبعلموں کے ذہنوں کو علم و آگہی کے نور سے منور کرتا ہے اور انہیں ایک بہتر مستقبل کے لیے تیار کرتا ہے۔ ایک عظیم استاد نہ صرف علم دیتا ہے بلکہ اخلاق، کردار، خود اعتمادی اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا یہ سفر پوری قوم کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد بنتا ہے۔اساتذہ کی ذمہ داری صرف نصابی تعلیم دینے تک محدود نہیں بلکہ وہ طلبہ کی فکری، اخلاقی اور سماجی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی کچھ بنیادی ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
استاد کا بنیادی فرض طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے تاکہ وہ علم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ استاد بچوں کی شخصیت اور اخلاق کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے، انہیں ایمانداری، دیانتداری اور احساسِ ذمہ داری سکھاتا ہے۔ ایک اچھا استاد طلبہ کو خود اعتمادی دیتا ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں اور زندگی میں مشکلات کا سامنا بہادری سے کر سکیں۔ استاد طلبہ کو مثبت سوچ، صبر، برداشت اور محنت کا درس دیتا ہے تاکہ وہ معاشرے میں اچھے شہری بن سکیں۔ اساتذہ بچوں کی فطری صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں تخلیقی اور تحقیقی کاموں کی طرف راغب کرتے ہیں۔ استاد طلبہ میں حب الوطنی، قومی یکجہتی اور سماجی خدمت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
اساتذہ اور قومی ترقی: قوم کی ترقی میں اساتذہ کا کردار کسی بھی حکومتی پالیسی یا ادارے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ایک ملک میں تعلیمی معیار جتنا بلند ہوگا، وہاں ترقی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، ان کی عزت کی جاتی ہے اور انہیں معاشرے کا سب سے معزز فرد سمجھا جاتا ہے۔
تعلیم یافتہ معاشرہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے اور اس کے پیچھے ایک محنتی استاد کی کاوشیں ہوتی ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد ہی کسی بھی ملک کی معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور اس کا سہرا بھی اساتذہ کو جاتا ہے۔ جدید دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی تعلیم پر منحصر ہے، اور استاد ہی وہ ذریعہ ہے جو اس میدان میں طلبہ کو آگے بڑھنے کے لیے تیار کرتا ہے۔
ایک اچھے استاد کی خصوصیات: ایک مثالی استاد کی کچھ اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
ایک استاد کو اپنے پیشے سے مخلص ہونا چاہیے اور طلبہ کے ساتھ دیانتداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ استاد کو صبر و تحمل سے طلبہ کو تعلیم دینی چاہیے، کیونکہ ہر طالبعلم کی ذہنی استعداد مختلف ہوتی ہے۔ ایک کامیاب استاد جدید تدریسی طریقے اپناتا ہے اور نئی ٹیکنالوجی سے واقف ہوتا ہے تاکہ تعلیم کو دلچسپ اور مؤثر بنایا جا سکے۔ استاد کو نہ صرف تعلیمی بلکہ زندگی کے دیگر پہلوؤں میں بھی طلبہ کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ ایک اچھا استاد بچوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ محبت اور شفقت کا رویہ رکھتا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں طلبہ کا رجحان تعلیم سے ہٹ کر دیگر سرگرمیوں کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے استاد کو انہیں متوجہ کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اساتذہ کو بعض اوقات والدین اور معاشرے کی جانب سے غیر ضروری دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کے تدریسی فرائض متاثر ہوتے ہیں۔
اساتذہ کی عزت اور ان کا مقام: اساتذہ کا احترام کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی استاد کو ایک عظیم مقام دیا گیا ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا، میں اس کا غلام بن گیا۔‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ استاد کا رتبہ کس قدر بلند ہے۔اساتذہ کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ ان کی محنت، ایمانداری اور خلوص کی بدولت ایک روشن معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ایک اچھا استاد اپنے علم اور کردار سے طلبہ کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہونے کے لیے تیار کرتا ہے۔ اگر ہم اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اساتذہ کی قدر کرنی ہوگی، انہیں بہترین وسائل فراہم کرنے ہوں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ استاد کا احترام ہی درحقیقت قوم کی ترقی کی ضمانت ہے۔موجودہ دور میں تعلیم کے تقاضے بدل چکے ہیں، اور ایک کامیاب استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید تدریسی مہارتوں سے لیس ہو۔ صرف کتابی علم کافی نہیں بلکہ اساتذہ کو تدریسی تکنیکوں، نفسیاتی حکمتِ عملیوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی واقف ہونا چاہیے۔تعلیم کو مؤثر اور دلچسپ بنانے کے لیے اساتذہ کو درج ذیل تدریسی طریقے اپنانے چاہئیں۔
(Activity-Based Learning): بچوں کو سیکھنے کے عمل میں عملی طور پر شامل کرنا۔پروجیکٹ بیسڈ لرننگ: کسی مخصوص موضوع پر تحقیقی منصوبے بنانا تاکہ طلبہ خود تجربہ کریں۔سوال و جواب کی حکمتِ عملی: بچوں کو سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ٹیکنالوجی کا استعمال: ڈیجیٹل کلاس رومز، اسمارٹ بورڈز، اور تعلیمی ایپس کا استعمال۔اساتذہ کی تربیت اور ورکشاپ:اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی کے لیے مختلف ٹریننگ پروگرامز اور ورکشاپس ضروری ہیں، جن میں(ECCE) کی تربیت – ابتدائی بچپن کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے۔(FLN) پروگرام – بنیادی خواندگی اور عددی صلاحیتوں میں بہتری کے لیے۔(ICT) تربیت – جدید تعلیمی ٹیکنالوجیز سے واقفیت کے لیے۔
اساتذہ کے عالمی معیار اور ترقی یافتہ ممالک کے ماڈلز:ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کا نظام اساتذہ کی قابلیت اور ان کی عزت پر منحصر ہوتا ہے۔ کچھ نمایاں ممالک جہاں اساتذہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ فن لینڈ میں اساتذہ کو اعلیٰ درجے کی تربیت دی جاتی ہے، اور ٹیچنگ کو سب سے معزز پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ جاپانی اساتذہ سخت محنت اور اخلاقیات پر زور دیتے ہیں اور انہیں معاشرتی رہنما مانا جاتا ہے۔سنگا پور میں اساتذہ کو جدید ترین تربیت دی جاتی ہے، اور ان کے لیے کیریئر میں ترقی کے بہترین مواقع ہوتے ہیں۔پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی تعلیمی اصلاحات ہو رہی ہیں، لیکن اساتذہ کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اساتذہ کے حقوق اور حکومتی پالیسیوں پر بحث:اساتذہ کی ترقی اور کارکردگی میں بہتری کے لیے حکومت کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:
اساتذہ کو مالی لحاظ سے مستحکم کرنا تاکہ وہ ذہنی سکون کے ساتھ پڑھا سکیں۔ اسکولوں میں جدید لیبارٹریز، لائبریریز، اور ڈیجیٹل وسائل فراہم کرنا۔ ہر استاد کے لیے سالانہ تربیتی پروگرامز اور ترقی کے مواقع فراہم ہوں۔ معاشرتی سطح پر اساتذہ کی عزت و وقار کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔
تعلیم صرف اسکول تک محدود نہیں، بلکہ والدین اور اساتذہ کے درمیان تعاون سے ہی بچے کی مکمل تربیت ممکن ہے۔ والدین اور اساتذہ کو درج ذیل نکات پر عمل کرنا چاہیے:
والدین اور اساتذہ کے درمیان مضبوط رابطہ ہونا چاہیے تاکہ بچے کی تعلیمی پیشرفت پر نظر رکھی جا سکے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تعلیم میں دلچسپی لیں اور ان کے لیے ایک مثبت ماحول فراہم کریں۔ والدین اور اساتذہ کو مل کر بچوں میں اچھے اخلاق، خود اعتمادی، اور معاشرتی اقدار پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اساتذہ کا اسلامی اور تاریخی تناظر میں کردار: اسلام میں استاد کو ایک روحانی رہنما اور عظیم شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں بھی استاد کی فضیلت کا ذکر ہے:
حضرت محمد ؐ نے فرمایا: ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، میں اس کا غلام بن گیا۔‘‘مسلمانوں کی تاریخ میں بھی عظیم اساتذہ کا ذکر ملتا ہے، جن میں امام غزالی، ابن خلدون اور علامہ اقبال شامل ہیں۔ ان اساتذہ نے نہ صرف علمی میدان میں کامیابیاں حاصل کیں بلکہ اپنی قوم کی فکری اور اخلاقی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔اساتذہ قوم کے معمار ہیں، جو بچوں کی ذہنی، اخلاقی، اور تعلیمی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بہترین استاد اپنی محنت، ایمانداری اور لگن سے طلبہ کی زندگی سنوارتا ہے اور انہیں ایک کامیاب مستقبل کی راہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ترقی کرے تو ہمیں اساتذہ کو عزت، وسائل اور سہولتیں فراہم کرنی ہوں گی تاکہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ قوم کی خدمت کر سکیں۔استاد کی عزت درحقیقت قوم کی ترقی کی ضمانت ہے۔
(مضمون نگارایک استاد ہیں اوربونیار بارہمولہ سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔18082403001
[email protected]