بشارت راتھر
کوٹر نکہ //بڈھال گائوں کی 3سگی بہنوں کو جموں میڈیکل کالج سے رخصت کیا گیا ہے۔گائوں میں 7دسمبر کے بعد، جب سے پر اسرار بیماری کے دوران ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں اب تک 17امواتیں ہوئی ہیں، دوسری بار کوئی متاثرہ کیس ہسپتال سے ٹھیک ہونے کے بعد رخصت ہوا ہے۔12جنوری کے بعد بیمار ہونے والوں میں یہ دوسرا معاملہ ہے۔7دسمبر کے سانحہ کے بعد،فضل حسین کی اہلیہ 3ہفتوں تک ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے بعد ٹھیک ہوکر گھر لوٹ آئی ہے۔ اب 22 جنوری کو جی ایم سی جموں میں ریفر کی گئی تین بہنیں 7روز کے بعد ہسپتال سے صحت یاب ہو کر رخصت کی گئی ہیں۔تازیم اختر( 23)،نازیہ کوثر( 16)اورخالدہ بیگم(18 ) کو ہسپتال سے پیر کی شام رخصت کیا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چندی گڑھ اور جی ایم سی راجوری میں ابھی بھی 4افراد زیر علاج ہیں، تاہم انکی حالت مستحکم ہے۔
سکول بند
بڈھال گائوں کی کچھ بستیوں کو پابندی والے زون قرار دینے کے بعد علاقے میں12 جنوری سبھی تعلیمی ادارے بند ہیں۔ زونل ایجوکیشن آفیسر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بڈھال بی( جو سب سے زیادہ متاثر ہوا) میں مجموعی طور پر ایک ہائی سکول ،4مڈل سکول، ایک مڈل سکول( بڈھال اے اور بی کے درمیان) اور 6پرائمری سکول بند کردیئے گئے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ ان سبھی سکولوں میں تقریباً668 بچے زیر تعلیم ہیں۔یہ سکول 12جنوری سے بند پڑے ہیں اور پچھلے 15روز سے یہ سینکڑوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ فوری طور پر سکولوں کو کھولنے رسک نہیں لے سکتے، کیونکہ ابھی تک صورحال معمول پر نہیں آگئی ہے۔
40دکانیں مقفل
بڈھال گائوں میں ہر طرح کا کاروبار معطل ہوگیا ہے۔گائوں میں صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ لوگ گھروں تک محدود ہوچکے ہیں اور ایک دوسرے کے گھر جانے کی ممانعت ہے۔گائوں کو تین زونوں میں تقسیم کرکے کسی بھی اجتماع پر مکمل پابندی ہے۔7دسمبر کے سانحہ کے بعد جونہی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو میڈیا میں یہ باتیں گردش کرتی رہیں کہ کھانے پینے میں کوئی زہریلی شے کی موجودگی سے ہلاکتیں ہورہی ہیں ، اسکے فوراً بعد گائوں کی سبھی چھوٹی بڑی کریانہ یا دیگر ایشیائے خوردنی کی تقریباً40سے زیادہ دکانیں بند ہوگئیں جو ابھی تک بند پڑی ہیں۔جن بستیوں میں دکانیں بند ہیں ان میںگدیوک،دھرم سال اورگڈولہ شامل ہیں۔ سابق سر پنچ محمد بشیر کے مطابق ان دکانداروں میں سے بیشتر نے بینکوں سے قرضہ لیکر اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا تھا تاکہ اپنا روزگار بھی ہو اور گائوں کی ضروریات بھی پوری کی جاسیں لیکن اب کئی ہفتوں سے یہ دکانیں بند ہیں جس کی وجہ سے ان دکانداروں کی مالی حالت مزید ابتر ہوجائے گی۔انہوں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ ان دکانوں کی مالی معاونت کی جائے یا بینکوں سے قرضوں کے سود پر رعایت دی جائے۔