سرینگر دِلّی کا کرایہ 15ہزار، دلی سے ملیشیاء تک 10ہزارجبکہ ڈھاکہ تک صرف 3000روپے
مرکز کاٹکٹوں کی قیمتوں پرپارلیمانی کمیٹی کی سفارشات ماننے سے انکار، عام لوگ، طلباء، کاروباری وسیاحتی شعبے بری طرح متاثر
بلال فرقانی
سرینگر//سرینگر سے مختلف ملکوں اور اندرون ملک ریاستوں کے درمیان ہوائی کرایہ بین الاقوامی ہوائی کرائیوں سے زیادہ ہے۔اس طرح کی صورتحال نہ صرف سیاحتی صنعت کیلئے سم قاتل ثابت ہو رہی ہے بلکہ مجبور طلباء اور بیمار افراد کیلئے سفر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگر آج یعنی بدھ 8جنوری کے فضائی کرایہ پر نظر ڈالی جائے تو اس طرح کی صورتحال نظر آرہی ہے۔سرینگر سے دہلی کیلئے براہ راست کرایہ 14,716 روپے، بنگلور 18,554 روپے، ممبئی 24,695 روپے، کولکتہ 17,995 روپے، حیدرآباد کا 17,498 ، چنئی کا21,389 کے علاوہ احمد آبادکا27,457روپے ہے۔ اس کے مقابلے میں بین الاقوامی پروازوں کا کرایہ نسبتاً کم ہے۔اگر اسکا موازانہ بین الاقوامی سطح پر کیا جائے تو پریشان کن صورتحال نظر آتی ہے۔ دہلی سے دبئی کا کرایہ 25,062 روپے، سنگاپور کا 16,147 روپے، کاٹھمنڈو کا صرف 5,997 ، ڈھاکہ کا 3268 اور ملیشیاء کا کرایہ 10237روپے ہے۔ نہ صرف سیاحوں کے لیے سفر مہنگا کردیا گیا ہے بلکہ وہ افراد جو بیماری یا تعلیم کے سلسلے میں سرینگر سے باہر جانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کے لیے بھی سفر کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ طلباء جو اپنی تعلیم کے سلسلے میں دوسرے شہروں میں منتقل ہوتے ہیں، وہ اس اضافی مالی بوجھ کا سامنا کرنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، بیماریوں کے شکار افراد جو فوری علاج کے لیے باہر جانا چاہتے ہیں، وہ بھی اس بھاری کرایہ کی وجہ سے اپنی سفر کی منصوبہ بندی کرنے سے قاصر ہیں۔سیاحتی شعبہ سے وابستہ انجمنوں کا کہنا ہے کہ یہ رجحان صنعت کے لیے تشویش کا باعث ہے، کیونکہ سفر کے اخراجات میں اضافے کا براہ راست اثر سرینگر اور دیگر مقامات پر سیاحت کے فروغ پر پڑے گا۔وادی میں ان دنوں سیاحوں کی اچھی خاصی آمدہے اور سردی کا موسم ہونے کے باوجود اوسطً10ہزار سیلانی روزانہ وادی وارد ہو رہے ہیں۔سرینگر سے سیاحوں اوورمسافروں نے ہوائی کمپنیوں کی جانب سے ٹکٹ کی قیمتوں میں اضافے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر جب کہ زمینی نقل و حمل میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں آئی ہے۔ یہ صورتحال سیاحت سے جڑے ہوئے لوگوںکیلئے خاص طور پر پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ہوٹل مالکان کا کہنا ہے’’ہمیں ہر سال یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے، لیکن اس بار موسم سرما شروع ہونے سے پہلے ہی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ حکومت کیوں ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ڈلگیٹ کے ایک ہوٹل مالک آصف کا کہنا تھا کہ ہوٹلوں کی متعدد بکنگیں منسوخ ہو چکی ہیں ۔خیام کے ایک ہوٹل مالک ظہور احمد نے بتایا کہ سیاحوں کا ایک گروپ آئندہ ہفتہ آنے والا تھا، لیکن ہوائی ٹکٹوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے انہوں نے اپنی بکنگ منسوخ کر دی۔سیاحت کے شعبے سے جڑے افراد اس بارے میں خاص طور پر تشویش کا شکار ہیں۔ٹراول ایجنٹس ایسو سی ایشن کے جنرل سیکریٹری سجاد کرالیاری نے کہا’’یہ اب معمول بن چکا ہے، ہم اس مسئلے کو انتظامیہ کے ساتھ اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، اب یہ معاملہ مرکزی حکومت سے حل ہونا چاہیے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ہوائی سروس متاثر ہونے کے نتیجے میں سیلانیوں کو کئی دنوں کے بعد ٹکٹیں ملتی ہیں اور تب تک ان کی بکنگ اور سفری منصوبے ختم ہوئے ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے سیاحتی صنعت سے وابستہ لوگوں کو کافی نقصانات ہو رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر سرینگر جموں قومی شاہراہ برفباری کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے تو ہوائی ٹکٹوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جنرل سیکریٹری فیض بخشی کا کہنا ہے کہ پروازوں کی منسوخیوں سے ہزاروں مسافر متاثر ہوئے ہیں۔ انہوںنے فوری طور پر جدید نیویگیشن سسٹم کی تنصیب اور ایئرپورٹ کی اپ گریڈیشن کا مطالبہ کیا ہے تاکہ سیاحتی کاروبار کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔محکمہ سیاحت کے ایک افسر بتایا کہ ایئر ٹکٹوں کی قیمتوں کو قابو کرنا شہری ہوا بازی وزارت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ مارچ میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے شہری ہوا بازی کی وزارت سے درخواست کی تھی کہ ایئر ٹکٹوں کی قیمتوں پر حدیں متعین کی جائیں تاکہ ہوائی کمپنیاںاپنی من مرضی کی قیمتیں نہ لگائیں۔ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ پرائیویٹ ایئرلائنز کے تجارتی مفادات اور مسافروں کی فلاح کے درمیان توازن قائم کرنا ضروری ہے۔تاہم، حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ آزاد منڈی کی معیشت میں مداخلت کرنے کے حق میں نہیں ہے اور ائر ٹکٹوں کی قیمتوں کو قابو کرنے کی مخالف ہے۔ اس کے باوجود، بڑھتی ہوئی ٹکٹوں کی قیمتیں اس بات پر سوالیہ نشانہ لگاتی ہیں کہ موجودہ نظام کتنی حد تک منصفانہ اور پائیدار ہے، خاص طور پر کشمیر کے حالات میں جہاں موسمی حالات کی بنا پر نقل و حمل میں رکاوٹیں آتی ہیں۔