سرینگر// طبی ماہرین نے بند کمروں میں غیر ہوادار گیس ہیٹر کے استعمال کے خلاف سخت وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کاربن مونو آکسائیڈ (سی او) کے زہر کے باعث جان لیوا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے عوام سے اس خطرے کو سنجیدگی سے لینے کی اپیل کی۔
ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز کشمیر (DHSK) کے ڈاکٹر مرتضیٰ احمد نے کہا کہ غیر ہوادار گیس ہیٹر جلنے کے بعد پیدا ہونے والے زہریلے مادے جیسے کاربن مونو آکسائیڈ کو خارج کرتے ہیں، جو ناقص ہوادار کمروں میں مہلک حد تک جمع ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، “کاربن مونو آکسائیڈ زہر ایک سنگین خطرہ ہے۔ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان ہیٹرز کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیا جائے اور ہوادار متبادل اختیار کیے جائیں”۔
ڈاکٹر احمد نے مزید کہا کہ اگر غیر ہوادار گیس ہیٹر کا استعمال ناگزیر ہو، تو اسے صرف مناسب ہواداری والے کمروں میں استعمال کیا جائے اور ہرگز بیڈ رومز، باتھ رومز یا بند جگہوں میں نہ چلایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ “یہ ہیٹر چمنی کے بغیر ہوتے ہیں، جس سے زہریلے مادے کمرے کے اندر ہی رہتے ہیں، جو خطرناک ہو سکتا ہے”۔
کاربن مونو آکسائیڈ، جسے “خاموش قاتل” کہا جاتا ہے، نظر، بو یا ذائقے سے ناقابل شناخت ہے۔ متاثرہ افراد نیند میں بے ہوش ہو سکتے ہیں اور خطرے کو محسوس نہیں کر پاتے۔ خاص طور پر بچے، بزرگ، حاملہ خواتین اور دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
گورنمنٹ میڈیکل کالج اننت ناگ کے ڈاکٹر شوکت احمد نے بھی غیر ہوادار گیس ہیٹر سے گریز کی تاکید کی۔ انہوں نے سانس گھٹنے کے علامات، جیسے آنکھوں، چہرے اور گردن پر چھوٹے سرخ یا جامنی دھبے، اور پھیپھڑوں میں ہیموریج سمیت دیگر نشانات بیان کیے۔
ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ کاربن مونو آکسائیڈ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب گیس، تیل، کوئلہ یا لکڑی مکمل طور پر نہ جلے۔ ناقص ہوادار جگہوں میں یہ خون میں آکسیجن کی ترسیل کو متاثر کر کے مہلک سطح تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین نے حفاظتی اقدامات کی سفارش کی:
– کاربن مونو آکسائیڈ ڈیٹیکٹرز نصب کریں۔
– کمروں کو مناسب ہواداری فراہم کریں۔
– ہیٹنگ آلات کی باقاعدہ جانچ اور دیکھ بھال کریں۔–
زہر کے علامات کی پہچان کریں اور فوری طبی امداد لیں۔
ماہرین صحت نے عوام کو آگاہی اور احتیاطی تدابیر اپنانے کی تاکید کی تاکہ سردیوں کے مہینوں میں زندگیاں بچائی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر سے ہونے والے حادثات قابل احتراز ہیں، اور غیر ہوادار گیس ہیٹرز پر انحصار کم سے کم ہونا چاہیے۔