اشفاق سعید
سرینگر // جموں وکشمیر میں بڑے پیمانے پر پن بجلی پیداواری صلاحیت ہونے کے باوجود بھی سرکار برسوں سے بیرون ریاستوں اور ناردن گرڈسے اضافی بجلی خریدنے پر مجبور ہے۔امسال بھی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی ہدایت پر محکمہ بجلی نے موسم سرما کیلئے 300میگاواٹ اضافی بجلی خریدی ہے۔لوگوں کو راحت پہنچانے کیلئے خریدی گئی بجلی کا اگرچہ عوامی سطح پر اچھا اور مثبت ردعمل سامنے آرہا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر سرکار مخلصانہ پالیسی کا بلیو پرنٹ تیار کر کے اگلے چار پانچ برسوں کے دوران جموں وکشمیر کو بجلی پیدا کرنے میں خود کفیل بنائیں ۔ معلوم رہے کہ یہاں آبی وسائل کو بروئے کار لا کربجلی پیدا کرنے کی مرکز یا متواتر ریاستی حکومتوں اوریوٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی پالیسی نہیں اپنائی گئی ، نتیجے کے طور پر آزادی کے 76برسوں کے دوران بھی جموں کشمیر میں صلاحیت کے برعکس صرف 17فیصد (3443.8) میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکی ہے جبکہ یہاں کے آبی وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 20ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔جموں وکشمیر میں ان دنوں بجلی کا شدید بحران ہے۔ اگرچہ این ایچ پی سی پروجیکٹوں سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے، لیکن اسکا براہ راست فائدہ جموں وکشمیر کو نہیں مل رہا ہے۔معاشرے کا ایک طبقہ بجلی کے بحران کو غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ قرا ر دے رہا ہے۔ معلوم رہے کہ جموں وکشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں گرمیوں میں 1800میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور سردیوں میں 2500سے2800میگاواٹ کی طلب رہتی ہے۔ اس سال دسمبر کے مہینے میں صارفین کو 1000سے1100میگاواٹ بجلی فراہم کی گئی جس کے نتیجے میں انہیں گھنٹوں اندھیرے میں رہنا پڑا۔اب یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیںکہ ریاستی حکومتیںجموں وکشمیر میں 76برسوں سے بجلی پیدا کرنے میں کیوں ناکام ہوئی ہیں۔اس وقت کشمیر میں جہلم او ر دیگر ندی نالوں پر 252میگاواٹ کے بجلی پروجیکٹ کام کررہے ہیں ،جبکہ چناب پر 933.8میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح راوی پر سیوا (سوم ) 9میگاواٹ کا پروجیکٹ ہے۔ کل ملا کر جموں وکشمیر میں یو ٹی سیکٹر میں مقامی بجلی پروجیکٹوں کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 1,193.8میگاواٹ ہے۔ محکمہ کا کہنا ہے کہ سردیوں کے موسم میں پانی کی مقدارمیں کمی کے نتیجے میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت صرف 200سے250میگاواٹ تک رہ جاتی ہے اور باقی خرید کر سردیوں کی طلب کو پورا کیا جاتا ہے۔
بہتر منصوبہ بندی
وادی کے معروف ماہر اقتصادیات شکیل قلندر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ غلطیاں ماضی میں ہوئی ہیں البتہ لوگوں کو راحت پہنچانے کیلئے جو بجلی خریدی جا رہی ہے وہ فیصلہ عوام کی حق میں بہتر ہے اور اس سے عوام کو فائدہ مل سکتا ہے ۔انہوں نے کہا ’’یہ سچ ہے کہ ماضی میں بجلی کی پیداوارکے حوالے سے جو بھی کوششیں ہوئیں اْن میں منصوبہ بندی کا فقدان تھا اور موجودہ حکومت کو ایک بار پھر بجلی پیدا کرنے کی مخلصانہ پالیسی کا بلیو پرنٹ تیار کرنا چاہئے تاکہ چار پانچ برسوں کے دوران جموں وکشمیر بجلی پیدا کرنے میں خود کفیل بن سکے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ سرکار بگلیار کی طرز پر پن بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر پر توجہ دے ، بیکار اور زیر تعمیر بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے ۔شکیل قلندر نے کہا کہ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنی ہو گی تاکہ ایسے بجلی پروجیکٹ تعمیر کریں جن سے ہمیں فائدہ ملے ،کیونکہ این ایچ پی سی پروجیکٹوں سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ شکیل قلندر نے کہا کہ وقت بدل رہا ہے اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں سرکار شمسی توانائی پر اپنی توجہ مبذول کرائے کیونکہ ہماری چھتیں خالی ہیں اور یہاں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے مواقعے بھی بہت زیادہ ہیں ۔