روشنی
ڈاکٹر سیدآصف عمری
سماج و معاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں ہورہی ہے جبکہ اصلاحی و دعوتی کام تیزی سے جاری و ساری ہے۔ اس تعلق سے باشعور دیندار مسلمانوں نے جائزہ لیا اور محاسبہ کیا تو مختلف افراد اور جماعتوں کے مختلف خیالات اور نظریات سامنے آئے جو حسب ذیل ہے۔بعض نے کہاکہ مسلمان صرف دنیا کا علم حاصل کررہے ہیں۔ دنیاسے محبت زیادہ ہوگئی ہے۔ قرآن مجید سمجھےبغیر پڑھ رہے ہیں۔ ماڈرن ایجوکیشن کی وجہ سے دین سے دوری ہوگئی ہے۔حلال وحرام کی تمیز ختم ہوگئی۔غیرقوم یہود ونصاری عام مسلمانوں کو مرتد کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کلچر عام ہوگیا، معروف کی دعوت اور منکر سے روکنے کا کام مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے۔ جماعتوں میں انتشار اور مخالفتیں ہیں وغیرہ۔علماء دین میں دعوت دین کا احساس نہیں رہا۔ جبکہ معاشرہ ،گھرخاندان اور مسلم سوسائٹی میں جرائم بڑھتے جارہے ہیں۔قتل و غارت گری، اغوا،ریپ، مرڈر،کرپشن،خیانت، چوری،رشوت، ناجائز وحرام کمائی، ظالم آزاد اور مظلوم پر قانون شکنجی،شرک، اوھام پرستی،غیراسلامی کلچر اور ماحول کا عام ہونا، کبیرہ گناہوں کو معمولی سمجھنا، قرآنی آیات و احکامات کی خلاف ورزی ، مشرکوں اور یہودیوں کے عقائد و نظریات ،طور طریقوں پر جانے انجانے عمل کرنا، غفلت ،لاپرواہی ذمہ داریوں سے راہ فرار،تہواروں میں مشابہت اور ان کی نقل،قرآن حدیث کی گستاخی،من گھڑت قصے کہانیاں اورغیر اسلامی اعمال سے دلچسپی، بدعات خرافات اور رسومات کو دین کا درجہ دینا، جادو کرناکروانا، شعبدہ باز عاملوںں کی بھرمار، نماز روزہ سے غفلت ،ایک دوسرے کی غیبت، تہمت اور بہتان تراشیاں، فحش ومنکرات کا عام ہونا، جھوٹے مقدمات اور جھوٹ بولنے والوں کی کثرت، بداخلاقی، بدگمانیاں، بے حیائی اور گندگیوں کو پھیلانا، حق کو چھپانا، ایک دوسرے سے تعصب ، دشمنی، حسد، بغض و عداوت اور انتقام لینا، ایک دوسرے کی کھوج اور جاسوسی کرنا، سامنے اچھی بات کرناپیٹھ پیچھے ان کی برائی بیان کرنا، شراب، جوا،تمباکو،سگریٹ نوشی کا جوانوں میں عام ہونا، بدکاری کے کھلے راستے، اسراف اور فضول خرچ، آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہنا اور فتنہ و فساد کی باتیں کرنا، کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر یا فاسق اورجہنمی کہنا، ناحق کسی کا حق مارنا، خودکشی کرنا، اولاد کا قتل اور ابورشن کروانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، بیوی بچوں پر ظلم وستم کرنا، غیر مردوں اور غیر عورتوں سے تعلقات قائم کرنا، شادی بیاہ میں مرد وزن کا اختلاط، جنس مخالف کی مشابہت اختیارکرنا، نیک لوگوں سےدشمنی کرنا، پڑوسیوں پر ظلم ڈھانا،گھرمیں بے دینی، عریانیت، بے حیائی اور بداخلاقی کو برداشت کرنا، ان کی اصلاح کی فکر نہ کرنا، صرف تنقید کرنا اور کام کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا، ماں با پ سے نفرت،دوست و احباب سے محبت، دوسروں کے مذہب کا مذاق اڑانا،موسیقی گانے بجانے اور فلم اسٹارس کے طرز کو اپنانا۔
سماج ومعاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں ہورہی ہے اورسماج و معاشرہ کی برائیاں اور جرائم کیاہیں ،آپ حضرات نے پڑھا ہے۔سرسری طور پر معاشرہ کے مسلم افراد اورگھرانوں مرد و خواتین،میاں بیوی، والدین، اولاد اور رشتے داروں پڑوسیوں کی موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ ا صلاح کرنے میں آسانی ہوسکے۔مسلمانوں کی اکثریت صحیح عقیدہ، ایمان وعمل سے ناواقف ہیںصرف کلمہ طیبہ معلوم مگر اس کا معنی و مفہوم اور شرائط نہیں جانتے، قرآن کی تلافت کرنے والے بہت کم ہیں مگر سمجھ کر پڑھنے والے تو لاکھوں میں ایک دو۔شرک، بدعات و خرافات ہی کو دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ بظاہر بت پرستی نہیں کرتے مگر اپنے باپ دادا اور اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں اسلام کا نام لے لے کر شرکیہ الفاظ اور کفریہ اعمال کرتے ہیں۔ دولت مند خوشحال مسلم گھرانے اپنی دولت، اسٹیٹس اور عیش وآرام، دکھاوا اور ریاکاری میں مصروف نظر آتے ہیں، انہیں دین،اصلاح،دعوت وتبلیغ ،امت اور انسانیت کی فکر سے کوئی واسطہ نہیں۔
نوجوان طبقہ مغربی کلچرWestern Cultureکا دیوانہ ہے۔انگریزی بول چال اور بے ہودہ لائف اسٹائل Life Styleکو باعث فخر سمجھتا ہے۔ دین سے بیزار اور دوسروں کی تہذیب اورکلچر سے محبت کرتا ہے۔ان نوجوانوں کی طرززندگی میںنہ طہارت، نہ نمازاور نہ قرآن ،یہ رات دن سوشل میڈیا میں مصروف ہیں،ان کا کھاناپینا،وضع قطع، چال ڈھال صورت شکل گمراہ لوگوں، مجوسیوں اوریہود ونصاری جیسی ہیں۔عورتیں آزاد ، بے حجاب، بے پردہ اورجو لباس برقع ونقاب استعمال کرتی ہے وہ بھی غیروں کی مشابہت رکھنے والا،شرم وحیاکو انہوںنے خیرباد کہہ دیا ہے۔ شادی بیاہ تقاریب میں مرد اور عورتیں خلط ملط ہوکر ڈانس، ناچ،بینڈ باجے میں مصروف ہیں۔ ایسی خواتین کو دین سے نفرت ہوتی ہےاورملی جلی تہذیب اور بین مذاہب جاتی شادیوں کو یہ عیب نہیں سمجھتی۔ نماز،روزہ کی پابندی سے دور، فرائض اور عبادت سے لاپرواہی اورغفلت ہوتی ہے۔ کتنے ایسے مالدار مسلمان ہیں جو حج اور زکوٰۃ بھی ادا نہیں کرتے۔گھر،گاڑی اورلباس عمدہ بلکہ عالیشان اور بہت قیمتی ہوتے ہیں،لیکن ہمدردی، انسانیت، خیرخواہی بالکل نہیں ہوتی۔عامۃ المسلمین کی اکثریت تو زندگی کے مقصد سے غافل ہیں ،وہ صرف کھانا کمانا، عیش وآرام کرنا، اچھے سے اچھا زندگی کا سازوسامان بنانااور اولاد کو دنیوی تعلیم دیناا ور دینی تعلیم سے محروم کرنااور ایسے مسلمان بھی ہیں جو کھانے کمانے میں حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر صرف پیٹ بھرنا اورجائز ناجائز جانے بغیر استعمال کرنا اور اپنے شوق کو پورا کرنا،اپنے شوق کی خاطر بے دریغ پیسہ خرچ کرنا، خلاف شریعت شادیوں کے لئے سود اور حرام مال لیتے ہیں، سود پر ہی سارے اچھے اور نیک کام کرتے ہیں جبکہ حرام مال سے دیا گیا صدقہ اور نیکی قبول نہیں نہ عبادتیں قبول اور نہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔صبح سے شام تک عام مسلمانوں کی اکثریت کا جائزہ اور محاسبہ لیں تو بس یہی ملے گا کہ صبح دیرسے اٹھنے کے عادی ہیں، بڑے شہروں میں اور رات دیر تک جاگنے کا رواج عام ہے۔ گھروں کا نظام درہم برہم ہے کوئی کسی کے کنٹرول میں نہیں ،نہ اولاد ماں باپ کے کنٹرول میں اور نہ بیوی شوہر کے کنٹرول میں اور شوہر اپنی بیوی، ماں باپ اور اولاد کی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔اسمارٹ فون نے تو سارے گھر کو تباہ کردیا ہے۔ سب بڑے چھوٹے مرد عورتیں اسی کے دیوانے ہیں۔ گھنٹوں اس کے اسکرین پر نظریں جمائے مختلف پروگرام، شوز ،سیریلس اور گیم میں مشغول ہیں ۔ اچھے اچھے دیندار لوگ بھی سل فون،آئی فون میں مصروف ہیں ۔ ایک گھر میں سب الگ الگ ہیں۔مارکیٹ اور بازار میں عورتیں سب برابر ہیں۔چنانچہ مسلمان متحد نہیں، کیوں کہ اگر ساری مسلم جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کر دور حاضر کے فتنوں اور چیلنجز ا ور فرقہ پرستوں کی یلغار کا اندازہ لگائیں تو پتہ چلے گا کہ آج ہمیں متحد و منظم ہونے کی سخت ضرورت ہے اورایمان کلمہ کی بنیاد پر ہی ہمارا اتحاد ہوسکتا۔قرآن مجید میں اصلاح معاشرہ کے اصول بھی بیان کئے گئے ہیں۔ساری انسانیت آدم کی اولاد ہے اور انسانیت ایک عالمی معاشرہ ہے جس میں امت مسلمہ بھی شامل ہے اور یہ امت دوسری تمام امتوں اور معاشرہ میں خیر امت کہلاتی ہے یہ بات خود قرآن نے کہی ہے۔ کنتم خیر امۃ، ہر انسان کی جان ،مال ، عزت،آبرو اس کامذہب محترم ہے۔ جان کی حفاظت اور اس کے تحفظ کے لئے کہا گیا کہ ناحق کسی نے کسی انسان کا قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا۔ (المائدہ 23) قتل ناحق بدترین جرم ہے۔معاشرہ میں فتنہ وفساد کو قتل سے بڑا جرم قرار دیاگیا۔
اصلاح معاشرہ کے اصول : اصلاح معاشرہ کے لئے سب سے پہلے ہر شخص اپنی اصلاح کریں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اصلاح و تربیت کا پہلا اصول یہ بتایا قواانفسکم (التحریم) تزکیہ نفس بنیاد ہے اصلاح معاشرہ کی۔پھر گھر کا بڑا یعنی مرد عورت کے ایمان عقیدہ،اعمال ،اخلاق کی اصلاح کا ذمہ دار ہے۔ عورت اگر تعلیم یافتہ دیندارہوگی تو گھر میں دینداری ،نیکی اور اچھائی ہوگی اور اولاد یندار ہوگی۔
اصلاح معاشرہ کے لئے ہر ایک کو اپنی مسؤولیت اور ذمہ داری کا احساس ہو۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد دونوں کی ادائیگی اسلام ہے۔ اصلاح کے لئے سب سے مؤثر اور سے سب سے بہترین طریقہ اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔اصلاح سماج و معاشرہ کے لئے علماء کرام آگے بڑھیں، عامۃ المسلمین گوگل انٹرنیٹ سے دین سیکھنے کے بجائے علما ء کرام سے دین کا علم حاصل کریں۔اصلاح معاشرہ کے لئے فطری منطقی عقلی طریقہ اختیارکیاجائے،گمراہی بگاڑ کی بنیاد اور محور و مقام دل ہے۔اگر دل ایمان اور صحیح عقیدہ سے مزین و معمور ہوگا تو اصلاح صحیح ہوگی۔قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دل کو پاک کیا جائے اور دل ہی انقلاب و تبدیلی کا محور اور محل ہے،لہٰذا سب سے زیادہ محنت دل یعنی اندرون پر کی جائے۔ توحید وایمان اگر دل میں بس جائے اپنی جگہ بنالے اور پیوست ہوجائے تو دوسرا بگاڑ خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔ اگر آپ نماز،روزہ، حج درست کرلیںاپنی وضع قطع لباس اور چال ڈھال درست کرلیں مگر دل میں کھوٹ ہے، نیت میں بگاڑ اور عقیدہ میں بگاڑ ہے تو ظاہری اصلاح سے کچھ ہونے والا نہیں۔
لہٰذا دل کو ایمان یقین تقوی طہارت سے مزین کریں۔اللہ کا ذکر دعاؤں کا اہتمام توبہ واستغفار سے معمور و مزین کریں۔ایسے کام کریں جس سے دل نرم ہوجائے اس کے لئے قبرستان جائیں، موت کی یاد آئے گی۔ دلوں میں آخرت کی فکرہوگی۔ دلوں کو شرعی علم کا حریص بنائیں کیوں کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء،دل کو فتنوں سے بچائیں، دل کو گناہوں سے بچائیں، دل کو بیماریوں سے بچائیں، دل کی خطرناک بیماریاں دوہیں۔ شبہات اور شہوات۔ قیامت کے دن قلب سلیم والے ہی نجات پائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور ہماری اصلاح فرمائے۔آمین
رابطہ۔9885650216
[email protected]