مختار احمد قریشی
کشمیر کا پہاڑی خطہ اپنے قدرتی حسن اور شدید برفباری کے لیے مشہور ہے۔ جب سردیوں میں برفباری ہوتی ہے تو یہ علاقہ سفید چادر میں ڈوب جاتا ہے اور یہ منظر دل کو خوش کرتا ہے۔ یہاں کی برفباری قدرتی حسن کا حصہ ہے۔ برفباری کا موسم یہاں کی معیشت، معاشرت اور روزمرہ کے معمولات کو ایک نیا رنگ دیتا ہے۔کشمیر میں برفباری کا آغاز عموماً نومبر کے آخر یا دسمبر کے شروع میں ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں برفباری کی شدت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہاں کی بلند ترین چوٹیوں پر برف تیزی سے جمنے لگتی ہے۔ جب پہاڑوں کے اوپر برف کی سفید چادر بچھ جاتی ہے، تو یہ پورے منظر کو بدل دیتی ہے۔ درختوں کی شاخوں پر جم جانے والی برف اور گھروں کی چھتوں پر اترنے والی سفید پرتیں ایک منفرد اور دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔برفباری کے دوران زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ سڑکیں برف سے ڈھک جاتی ہیں اور نقل و حرکت مشکل ہو جاتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میںگاڑیاں برف میں پھنس جاتی ہیں اور اکثر راستے بند ہو جاتے ہیں۔ لوگ پیدل چلنے کو ترجیح دیتے ہیںاور برف میں چلنے کے لیے خاص جوتے استعمال کرتے ہیں جو ان کو پھسلنے سے بچاتے ہیں۔برفباری کے دوران لوگ اپنی روزمرہ کی محنت میں کمی یا تبدیلی کا سامنا کرتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں کھیتوں کی دیکھ بھال مشکل ہو جاتی ہے اور بہت سے کسان اپنے مویشیوں کے لیے گھروں میں جگہ بناتے ہیں۔ برفباری کے دوران خوراک کی کمی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے، اس لئے لوگ پہلے سے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ان کے لیے یہ وقت عموماً ایک دوسرے کے ساتھ روابط مضبوط کرنے کا ہوتا ہے۔
پہاڑی علاقوں میں برفباری کی خوبصورتی اپنی جگہ بے مثال ہوتی ہے۔ درختوں، پہاڑوں، جھیلوں اور وادیوں میں برف کی تہیں جمنے کے بعد ایک منفرد منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ منظر دور سے آنے والے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور کشمیر کا سیاحتی کاروبار بھی برفباری کے دوران عروج پر ہوتا ہے۔
اگرچہ برفباری کا موسم خوبصورت ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ مشکلات بھی وابستہ ہیں۔ سڑکوں کی بندش، بجلی کی فراہمی میں خلل اور سردی کی شدت سے بچاؤ کے لیے سخت اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں اکثر گھروں کی چھتوں پر برف جمع ہو جاتی ہے جس سے چھتیں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ برفباری کے دوران بیماریاں بھی پھیلنے لگتی ہیں اور سردی کی شدت سے بچنے کے لیے لوگوں کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔لوگوں کے لیے نقل و حرکت ایک چیلنج بن جاتی ہے۔ سڑکوں پر برف جمع ہو جانے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے ، یہاں تک کہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی برفباری کے دوران تعطیلات کا اعلان کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ اکثر گھروں تک محدود رہ جاتے ہیں اور ان کے لیے یہ وقت سوشل میڈیا یا ٹی وی کے ذریعے دنیا سے جڑے رہنے کا ہوتا ہے۔
کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ محنتی اور ہمت والے ہوتے ہیں۔ برفباری کے موسم میں بھی ان کی زندگی کے معمولات میں کمی نہیں آتی۔ وہ اپنے کھیتوں کو صاف رکھتے ہیں، اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور دوسرے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ اکثر کسان اپنے گھروں کی چھتوں پر برف صاف کرتے ہیں تاکہ گھروں میں پانی داخل نہ ہو۔ لوگ برف کو پگھلا کر پانی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور سردیوں میں گرمی کے لیے لکڑیاں جمع کرتے ہیں۔
کشمیر میں برفباری کا موسم سیاحت کے لحاظ سے بہت اہم ہوتا ہے۔ اس موسم میں دنیا بھر سے سیاح کشمیر آتے ہیں تاکہ وہ برفباری کا لطف اٹھا سکیں۔ گلمرگ، پلوامہ اور دیگر پہاڑی علاقوں میں اس وقت سیاحت کی صنعت عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ سیاح برف سے ڈھکی وادیوں میں سکیئنگ، اسنوموبائل رائیڈنگ اور دیگر برفانی کھیلوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مقامی معیشت بھی مضبوط ہوتی ہے کیونکہ سیاحت کی صنعت سے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔
برفباری کے دوران لوگوں کے باہمی رشتے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور بچے بھی برف میں کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ لوگ آپس میں مل کر برف صاف کرتے ہیں،گیت گاتے ہیں اور کہانیاں سناتے ہیں۔گویا یہ وقت خاندانوں کے لیے قربت اور محبت بڑھانے کا ہوتا ہے۔
پہاڑی علاقوں میں برفباری کے دوران لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سردیوں میں برفباری کے دوران درختوں کی ٹوٹ پھوٹ، برف کی تیز لہریں اور سڑکوں کا پھسلنا ممکنہ خطرات پیدا کرتا ہے۔ اس لیے مقامی حکام اور رہائشی دونوں کو برفباری کے دوران احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے برف کو صاف کرنے کے بعد ہی باہر نکلتے ہیں اور گرم کپڑے پہن کرہی برف میں چلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
برفباری کا اثر صرف روزمرہ زندگی اور سیاحت پر نہیں پڑتا، بلکہ اس کا دیگر صنعتوں پر بھی اثر ہوتا ہے۔ زراعت، تعمیرات اور دیگر کاروباری سرگرمیاں برفباری سے متاثر ہوتی ہیں۔ زراعت کی فصلیں برفباری کے دوران سردی سے متاثر ہو سکتی ہیں اور کسانوں کو ان فصلوں کی حفاظت کے لیے اضافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ کئی دفعہ برفباری کے باعث کھیتوں تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے، جس سے زرعی پیداوار میں کمی آتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں تعمیراتی کام بھی رک جاتا ہے کیونکہ برف اور ٹوٹ پھوٹ کے باعث کام کرنے میں مشکلات آتی ہیں۔برفباری کے دوران تعلیمی اداروں میں بھی تعطیلات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ سردیوں کے دوران برفباری کے اثرات طلباء کی تعلیم پر بھی پڑتے ہیں کیونکہ اسکولوں اور کالجوں کا معمول متاثر ہوتا ہے۔ بچے گھروں میں رہ کر والدین کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور تعلیمی ادارے برف صاف کرنے یا سڑکوں کو کھولنے کے لیے وقت ضائع کرتے ہیں۔ تاہم تعلیمی ادارے اس دوران آن لائن کلاسز یا دیگر متبادل ذرائع سے تعلیمی عمل جاری رکھتے ہیں تاکہ بچوں کی تعلیم میں خلل نہ آئے۔
برفباری کا موسم صرف جسمانی محنت تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کا اثر لوگوں کے ذہنی رویے پر بھی ہوتا ہے۔ سردی اور برفباری کی شدت بعض اوقات لوگوں کو تنہائی کا احساس دلاتی ہے اور وہ اندرونی طور پر مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔تاہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور یہ باہمی تعاون کا جذبہ سردیوں کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ معاشرتی تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں برفباری کے موسم میں موسمی تبدیلیاں بھی اہم ہوتی ہیں۔ برفباری کے بعد موسم کا بدلاؤ ہوتا ہے، اور اس کے اثرات کئی ہفتوں تک جاری رہتے ہیں۔ بعض اوقات برفباری کے دوران درجہ حرارت بہت کم ہو جاتا ہے، جس سے توانائی کے ذرائع کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ گیس، بجلی یا لکڑی کی کھپت میں اضافہ ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو گرم رکھا جا سکے۔ یہ موسم بھی لوگوں کے لیے صحت کے مسائل پیدا کرتا ہے کیونکہ سردیوں میں بیماریاں زیادہ پھیلتی ہیں، خاص طور پر سانس کی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں۔
برفباری کے موسم سے نمٹنے کے لیے حکومت مختلف اقدامات کرتی ہے۔ سڑکوں کو برف سے صاف کرنے کے لیے مشینیں چلائی جاتی ہیں اور امدادی سامان پہنچانے کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ گاؤںکے لوگوں کو مختلف احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ برفباری کے دوران محفوظ رہیں۔ اس کے علاوہ، صحت کے مراکز اور ہسپتالوں میں برفباری کے دوران زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے اضافی انتظامات کیے جاتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں برفباری کا موسم مقامی معیشت پر ایک دوہرا اثر ڈالتا ہے۔ ایک طرف جہاں سیاحت کی صنعت میں عروج آتا ہے، وہیں دوسری طرف زراعت اور تعمیرات کے شعبے میں مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ کسانوں کو سردیوں میں فصلوں کی حفاظت کے لیے اضافی محنت کرنی پڑتی ہے اور برفباری کے دوران کاروباروں کو بند ہونے یا سست روی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ تاہم کچھ صنعتوں جیسے کہ سیاحت، برفباری کے موسم میں ترقی کرتی ہیں کیونکہ سیاح برف کے کھیلوں اور خوبصورت مناظرات کا لطف اٹھانے آتے ہیں۔ گلمرگ، پہلگام اور دیگر مشہور مقامات برفباری کے دوران سیاحوں سے بھر جاتے ہیں۔ اس دوران برفباری کے کھیل جیسے کہ سکیئنگ، اسنوموبائل رائیڈنگ اور برفانی پیدل سفر کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ان سرگرمیوں سے نہ صرف سیاحت کو فروغ ملتا ہے بلکہ مقامی کاروباری افراد کو بھی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ سیاح مقامی ہنر مندوں سے گرم ملبوسات خریدتے ہیں اور ہوٹلوں، ریسٹورانٹس اور گائیڈ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔پہاڑی علاقوں میں برفباری کے موسم کا ثقافتی زندگی پر بھی بڑا اثر پڑتا ہے۔ برفباری کی شدت سے جڑی کئی روایات اور رسومات آج بھی ان علاقوں میں زندہ ہیں۔ سردیوں کی راتیں خاص طور پر خاندانوں کے لیے یکجا ہونے کا وقت ہوتی ہیں، جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر چائے یا گرم سوپ نوش کرتے ہیں اور ساتھ ہی سردیوں کے مخصوص پکوان تیار کرتے ہیں۔ اس موسم میں ’’کشمیری گلاب جامن‘‘، ’’سوجی کی کھیر‘‘ اور ’’ڈونگا‘‘ جیسے خصوصی پکوان تیار کیے جاتے ہیں، جو نہ صرف موسم کی شدت سے بچاؤ کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ یہ ثقافت کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔اسی طرح کی کئی معاشرتی سرگرمیاں ایک دوسرے کی مدد کے طور پر انجام دی جاتی ہیں اور اس دوران روابط مضبوط ہوتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں برفباری کے دوران تعلیمی اداروں کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ اسکولوں کی تعطیلات اکثر بڑھا دی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجودمقامی تعلیمی ادارے بچوں کے لیے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں بچوں کے لیے خصوصی کلاسز اور کھیلوں کی سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور جسمانی سرگرمیوں میں توازن قائم رکھ سکیں۔مزید یہ کہ برفباری کے موسم میں دور دراز علاقوں میں رہنے والے بچے تعلیم کے حصول کے لیے سخت حالات میں بھی اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان بچوں کی محنت اور عزم اس بات کا غماز ہے کہ برفباری کے باوجود علم کا چراغ روشن رکھا جا سکتا ہے۔
پہاڑی علاقوں میں برفباری کا موسم ماحول پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ اگرچہ برفباری ایک قدرتی عمل ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی شدت اور دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر پہاڑی علاقوں میں زیادہ محسوس ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں برفباری کی شدت میں اضافہ اور برف پگھلنے کے مراحل میں تیزی آتی ہے۔ اس سے نہ صرف مقامی ماحول بلکہ سیاحتی صنعت، زراعت اور رہائشی علاقوں کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔مقامی حکومت اور ماحولیات کے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ برفباری کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ماحولیات کی حفاظت کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ قدرتی خوبصورتی دیکھنے کا موقع ملے اور ساتھ ہی ان کے لیے زندگی کے حالات بہتر ہوں۔
پہاڑی علاقوں میں برفباری کے دوران سفر کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر برف جمنے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور کئی مقامات تک پہنچنا ممکن نہیں رہتا۔ برفباری کے دوران گاڑیوں کے پھسلنے اور حادثات کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت اور مقامی انتظامیہ اس دوران برف کو ہٹانے اور سڑکوں کو صاف کرنے کے لیے مشینوں کا استعمال کرتی ہے تاکہ لوگوں کو بنیادی ضروریات کے لیے سفر کرنے میں مشکل نہ ہو۔ پہاڑی علاقوں میں برفباری کے دوران ایمرجنسی خدمات جیسے ایمبولنس یا فائر سروسز تک پہنچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ مقامی افراد اپنے جانوں کی حفاظت کے لیے برفباری کے دوران باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں اور جنہیں باہر جانا ہوتا ہے وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔پہاڑی علاقوں میں برفباری کا موسم نہ صرف قدرتی حسن کی ایک مثال ہے بلکہ اس کا زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گہرا اثر بھی پڑتا ہے۔ چاہے وہ سیاحت ہو، زراعت ہو، یا روزمرہ زندگی کا معمول، برفباری کے موسم میں لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ تاہم یہ موسم انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے اور باہمی تعاون اور عزم کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے ماحول کی حفاظت کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان خوبصورت پہاڑی علاقوں کی سیر کر سکیں۔
( مضمون نگارمدرس ہیں اور بونیار بارہمولہ سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔8082403001
[email protected]>