غورطلب
قیصر محمود عراقی
ساعتیں جب آپس میں ملتی ہیں تو ایک لمحے کا روپ دھار لیتی ہیں، لمحے جب اکھٹے ہوتے ہیں تو سیکنڈ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، سیکنڈ سے منٹ اور منٹیں مل کر گھنٹوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، گھنٹے دنوں کو جنم دیتے ہیں، دنوں سے ہفتے اور ہفتوں کا اتفاق مہینوں کا تخلیق کرتا ہے جب کہ بارہ مہینوں کی جوڑ سے ایک سال کا باعث بنتا ہے۔
آج نئے سال کا پہلا دن ہے، ہر انسان کیلئے نیا سال امنگوں اور ترنگوں کی نئی روح لیئے آتا ہے، انسان نئے عزم اور جذبے کے ساتھ اپنی آئندہ زندگی گذارنے کیلئے خون سے عہد وپیما ںکرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نئے سال کی آمد کی خوشی میں وہ پچھلے سال کی تلخیاں اور غلطیاں بھول کر آگے بڑھنے کیلئے کوشاں ہوتا ہے اور اپنی خواہشوں کی تکمیل کیلئے کمر بستہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیںہر نیا سال نئی امیدیں لیکر آتا ہے اور آج ۲۰۲۵ء کا پہلا دن ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ہر سال کی طرح ہم نے اس سال بھی ہر طرف سے خوشی ملنے کا اپنے تئیں’’گرین سگنل ‘‘دے دیا ہے، یہ خواہش ہوسکتی ہے جس کی تکمیل قدرےمشکل نظر آتی ہے، مگر ناممکن نہیں۔ ناممکن اس لئے نہیں کہ اگر ہم اپنی زندگی میں ایک نئے عزم کے ساتھ تہیہ کرلیںکہ ہم آج سے ہی جھوٹ ، مکر، فریب ، غیبت ، بخیلی، تنگ دلی، فضول گوئی، بے صبری ، خودنمائی ، خودستائی، در وغ گوئی، وعدہ خلافی، راز کی ثبوتاژی ، دشنام ترازی، لڑائی جھگڑے ، آبروریزی، ایذارسانی، نفرت، غصہ ، احساس برتری، احساس کمتری، تخریب کاری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، ہٹ دھرمی، حرص، ریا کاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرکے نظم وضبط ، تعاون ، امدادِ باہمی، محبت ، اعتبار ، وسعت نظری، سچائی، نیکی ، انصاف ، پاس عہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم ، فیاضی، فراخ دلی، صبر تحمل، اخلاقی بردباری، خودداری، شائستگی، ملن ساری، فرض شناسی، وفاشعاری، مستعدی، احساس ذمہ داری، والدین کی خدمت ، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک ، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت ، پاک دامنی، خوش گفتاری، نرم مزاجی، خیر اندیشی، راست بازی، کھرا پن اور امن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائینگے ورنہ ہر نیا سال صرف ہندسوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریباً ۷۷ سال ہوچکے، کہنے کو یہ ایک انسان کی تقریباً پوری زندگی ہے لیکن ان طویل برسوں میں ہم کبھی ہم اس منزل پر نہیں پہنچ سکے جس کے وعدے کر کے اور جس کی چاہ میں ۱۹۴۷ءہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا ۔ آج جہاں ایک جانب ملک کو بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے، عوام پرُامن وپرُ سکون زندگی گذارنے کیلئے ترس رہے ہیںتو دوسری طرف حکومتی سطح پر بد انتظامی، کرپشن ، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست میں عام ہندوستانیوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’دن تو بدلتے نہیں لیکن سال بدل جاتے ہیں‘‘،ہندوستانی عوام کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔ ذرا ایک نظر ملک کے حالات پر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہر طرف بارود اور خون کی بو پھیلی ہے، سانحات ہی سانحات ہورہے ہیں، مگر فکر کس کو ہے؟ کس کی مجال ہے کہ وطن کی فکر کرے؟ اور کون کریگا؟ وہ نسل اقتدار اور حساس اداروں سے رخصت ہوگئی جنہیں وطن کی فکر ہوا کرتی تھی۔ ۲۰۲۴ء کا سال بھوک ، بیماری ، پریشانی، فکر ، جرم وتشدد، کرپشن ، لوٹ مار، جہالت اور افلاس کی اسیری سے رہائی نہ دے سکا، اچھے دنوں کی نوید سننے اور ان کے خواب دیکھتے ہوئے مثبت خیالات چشم تصور میں لاتے لاتے سال تمام ہوگیالیکن اطمینان ، خوشحالی، فکر فرداسے نجات اور تنگ دستی چھٹکارا، اہل ہندوستان کواس برس بھی حاصل نہ ہوسکا۔ ہر گذرتے سال کے اختتام پر امید یہی ہوتی ہے کہ سال نوکا سورج خوشیوں کا پیغام لیکر طلوع ہوگالیکن سال کے اختتام پر جب یہ غروب ہوتا ہے تو اس وقت تک کروڑوں لوگوں کا مستقبل بھی غروب ہوچکا ہوتا ہے۔
آج ہم نئے سال کی دہلیز پر قدم تو رکھ ہی بیٹھے ہیں، امید کا دامن بھی تھام لیا ہے اور اچھے وقت کا انتظار بھی ہے۔ اللہ کرے کہ اب کے برس ہماری امیدیں ہمیشہ کی طرح انتظار کا سفر کرتے کرتے مایوسی کی جانب قدم بڑھانے کے بجائے ہمارے ملک اور ملک کے لوگوں کی زندگیوں میں روشنیاں بکھیردے، اس پاون دھرتی پہ امن ومحبت کا سورج یو ںاپنی شعائیں پھیلا ئے کہ ہر گھر روشن اور ہر دل آباد ہوجائے۔ ہمارے ملک کا ہر ایک گائوں ، شہر ، خطہ اور علاقہ اندرونی وبیرونی خطرات اور دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہے، یہاں سے فرقہ واریت ختم ہو اور بھائی چارے کو فروغ ملے ۔نیا سال امن کا سال ہو ، میری دعا ہے کہ نیا سال پوری عوام کیلئے ہر لحاظ سے تحفظ اور استحکام کا سال ہو ، ہر ہندوستانی کے دل میں ہندوستان سے محبت کی شمع ہمیشہ روشن رہے، سب کیلئے خوشحالی ، تحفظ ، امن ومحبت ، عدل وانصاف اور استحصال سے پاک معاشرے کا سال ہو۔ نیا سال رحمتوں ، برکتوں ، پیار ومحبت ، ایثار وقربانی ، تعمیر، ترقی وخوشحالی کا سال ثابت ہو۔لیکن افسوس صد افسوس نیاسال آئے یا نئی صدی، ہم جیسے تھے ویسے ہی رہیںگے، ہمارا ظاہری حالت ، ہماری اندرونی کیفیت ، ہماری ذہنیت ، ہماری معیشت ، ہمارا زرعی نظام، ہماری جاگیرداری، ہمارا سرداری سسٹم، ہماری تعلیمی حالت ، ہماری جہالت ، ہماری توہم پرستی، پیروں، فقیروں، ملنگوں، مجاوروں، نجومیوں، دست شناسواور عطائیوں پر ہمارا انحصار یہ سب کچھ ہر سال جوں کا توں رہےگا۔ اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ آج طلوع ہونے والا نئے سال کا سورج ہماری زندگیاں بدل دیگا تو ازراہ کرم آج غروب ہونے والے سورج کو اچھی طرح دیکھ لے۔ ہم لوگ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں جس وحشت اور جہالت کے رتبے پر اُس وقت فائض تھے ،آج بھی وہی ہیں۔ بہر حال نئے سال میں کوئی بات بھی نئی بات نہیں ہے، ہر صبح سورج نکلے گا اور شام کو ڈوب جائیگا، ہر سال کی طرح ہی لوگ پیدا ہونگے اور مر جائینگے، وہی مندروں سے گھنٹیوں آوازیں اور مسجدوں سے اذان کی صدائیں گونجتی ہوئی سنائی دیگی۔ کچھ بھی تو بدلا ہوا نظر نہیں آئیگا، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں دعا گوں ہوں کہ نیا سال انسانیت کیلئے خوشیوں کا پیغام لائے اور انسان جنگوں کا سامان جمع کرنے کے بجائے امن وسکون کی تلاش میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھا م کر زندگی گذارنے کی کوشش کرے۔
رابطہ۔6291697668