یو این آئی
نئی دہلی//بانگ درا اقبال کا اولین اردو مجموعہ کلام ہے۔ یہ کتاب اقبال کی فکر کے ارتقا ئی مراحل کا پتا دیتی ہے ۔سالِ رواں بانگ درا کی اشاعت کا سواں سال ہے۔ایک صدی گزرنے کے بعد بھی فکر اقبال کی تازگی ماند نہیں پڑی ہے۔ بانگ درا زندہ متن ہے۔ زندہ متن وقت کے ساتھ بدلتے طرز تفہیم کو نئے سرے سے غورو فکر کی دعوت دیتاہے،نیا حوصلہ اور نئے ولولے عطا کرتا ہے۔ ان خیالا ت کا اظہارسمینار کے کنوینر پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام بانگ درا کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پر منعقد ہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔پر وگرام سے قبل سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی وفات پر قراداد پیش کی گئی –
منموہن سنگھ کو ان کی اقبال شیدائی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ ہمارے سابق وزیر اعظم کو دیوناگری نہیں آتی تھی اس لیے وہ نستعلیق میں ہی پڑھتے تھے اور علامہ اقبال کے شیدائی تھے، انھوں نے پارلیمنٹ میں جتنے بھی اشعار پڑھے اتفاق سے سبھی اقبال کے ہی تھے۔ اس موقع پر یہی دعا گو ہوں کہ اللہ ان کی روح کو سکون بخشے۔افتتاحی تقریب میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کلیدی خطبہ پیش کر تے ہوئے کہا کہ اقبال سے پہلے اردو نظموں کا دائرہ بہت محدود تھا۔ موضوع و اسلوب دونوں اعتبار سے اقبال اپنی نظموں میں منفرد و یکتا نظر آتے ہیں۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال جتنے اہم کل تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔