تجزیہ
سیّدہ نسرین نقاش
غزل اپنی ہیٔت اور ترکیب کی خصوصیت اور بنیادی فطرت کے اعتبار سے کچھ ایسے اوصاف رکھتی ہے اور اس میں کچھ ایسی لچک و لوچ ہے کہ حالات اور زمانے کے تقاضوں اور مطالبوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت ہے اور ہر دور کے احساسات و خیالات کو بحسن و خوبی بیان کرنےکی قدرت بھی موجود ہے۔ یہ اپنے دور کی آواز سےاس قدر ہم آہنگ ہونے کےاہل ہے کہ صحیح معنوں میں متعلقہ زمانے کی ترجمان بن کر فرض انجام دیتی رہی ہے۔
سیّد خورشیدؔ کاظمی نے زندگی کو پڑھا ہے اور انسانیت کا وسیع و عمیق مطالعہ کیا ہے۔ حالات حاضرہ کا گہرا مطالعہ اور پس منظر احوال کا مدبرانہ جائزہ آپ کی قابلِ قدر خصوصیات ہیں۔ آپ نے ایک حساس دل کے ساتھ طبعِ موزوں بھی پائی ہے ۔چنانچہ زندگی کے تلخ و شیریں ذایٔقوں کو اپنی تخلیقی صلاحتیں بروئےکار لاتے ہوے نہایت خوبصورت شعری پیرائے میں منتقل کیا ہے جسے پڑھکر لطف کے علاوہ درسِِعبرت بھی ملتا ہے ۔خورشیدؔ کاظمی کی شاعری زندگی کی نمواور جولائ سے بھر پور سچی، کھری، زور دار، جُرأت آموز ، دلآویز اور اوریجنل شاعری ہے۔ یوں توشاعری میں ہر جذبہ کو موضوع سخن بنا یا جاتا ہے جس میں ایثار، وفا ،شجاعت، غیرت، امید ،تحریک عمل حتی کہ نفرت و عداوت کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ کاظمی صاحب کو جذبات و الفت کے تانے بانےمیں دنیا بھر کے موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کا ملکہ حاصل ہے ۔ان کا اپنا لہجہ اور اچھوتا اندازِ بیان ہے۔ ان کی اپنی منظر کشی اور طرزِ فکر ہےجس پرنقالی کا شایٔبہ تک نہیں ہوسکتا۔ یہی خورشیدؔ کاظمی کی انفرادیت ہے:
مسمار مکانوں میں بیٹھے ہیں وہ اس غم میں
وہ پھر سے مکاں اپنے کس طرح بنائیں گے
ہے خاکِ وطن اپنی زرخیز بہت یارو
ہم پھول محبت کےپھر اس میں اُگائیں گے
خورشیدؔ کا وعدہ ہے اے میرے وطن تجھ سے
آنگن میں ترے پھر سے ہم پھول کھلائیں گے
رشیدؔ کاظمی کی شخصیت کئی رنگوں کے امتزاج سے بنی ہے لیکن لمحہ بہ لمحہ بدلتے رنگوں میں ظاہر ہوگئی ہے اورہر بار ان کی قوت کا احساس دلاتی ہے ۔کبھی یہ شرم واحتیاط اور صبرو تحمل کے پیکر نظر آتے ہیں اور کبھی مُتلوِّن مزاج اور سیماب فطرت ۔ کبھی یہ بچوں کی سی معصومیت اور حیرت کے مظہر ہیں اور کبھی جہاں شناس شخص کی طرح طنز کے تیر برساتے ہیں ۔کبھی مسلسل برداشت پر راضی اور کبھی غصہ ۔ورنہ غور سے دیکھئے، تو یہ ایک ایسے باغی اور روایت شکن فن کار کی شخصیت ہے جسے قدم قدم پر معاشرتی اور تہذیبی معاونت کی حرمتوں کاقائل ہونا اور کبھی امنگوں اور ارادوںکو گھٹن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زخمی آرزوئیں تہہ نشیں ہو گئی ہیں جو گاہے گاہے ان کے رعب کے باوجود اظہار پرمصر رہتی ہیں ۔یہ اظہارایک ایسی طوفانی یلغار نہیں جو سارے وجودکو بہا کر لے جائے ۔ یہ ایسا بہاو ہےجسے ایک مستحکم شخصیت نے روک لگائی ہے:
کہنے کو تو ُدنیا میں یوں آرام بہت ہے
سچ پوچھئے تو یاں غم و آلام بہت ہے
ہر حال میں حالات پہ انساں کی نظر ہے
جو چُوک گیا تو بُرا انجام بہت ہے
بہرحال سیّد خورشیدؔ کاظمی کم گو شاعر ہیں۔ انہوں گویائی سے زیادہ معیار کو ترجیح دی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک وقار ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو متوازن رکھتے ہوے شعری ارتقاء کی منزلیں طے کی ہیں جس کے باعث کلام میں سادگی سلاست سوزوگداز اور فکری آرائش کے عمدہ نمونے دستیاب ہیں۔ اُن کے یہاں غزل کا ہر رنگ موجود ہے، انہوں نےالفاظ کی نشست وبرخاست کا خاص خیال رکھاہے جو ان کو ایک قد آور شاعر کی حیثیت دلانے کے لیے کافی ہے۔
(رابطہ۔94190 79144)
[email protected]