رمیش کیسر
نوشہرہ//نوشہرہ قصبے سے محض دو کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤں بریری میں رہنے والے شیڈیول کاسٹ طبقے کے افراد نے حکومت پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 75 برس گزر جانے کے باوجود ان کے گاؤں میں کوئی بھی بنیادی سرکاری سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ یہ گاؤں، جو کہ بازار سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، آج بھی شہری سہولتوں سے محروم ہے، جس کی وجہ سے مقامی لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔بریری گاؤں کے مکینوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں نہ تو کوئی سرکاری بینک ہے، نہ ہی کوئی راشن ڈیپو، نہ ہی کوئی ہائی اسکول، نہ محکمہ صحت کا طبی مرکز اور نہ ہی وٹرنری سنٹرقائم کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ، گاؤں میں حکومت کی طرف سے کوئی بھی دیگر بنیادی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ گاؤں کے لوگ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ ان کے ساتھ شروع سے ہی امتیازی سلوک برتا گیا ہے، اور یہ سلوک آج تک جاری ہے۔بریری گاؤں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سے انہوں نے ہمیشہ ہر سیاسی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دیا ہے، لیکن انتخابات کے بعد وہ اپنے وعدوں سے غافل ہو جاتے ہیں اور گاؤں کی طرف کبھی توجہ نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں ترقی کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا اور حکومت کی طرف سے ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔بریری گاؤں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین ہیں جو 1947 میں تقسیم کے وقت یہاں آباد ہوئے تھے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ آج تک مہاجرین کی طرح زندگی گزار رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے نہ تو انہیں زمین کا حق دیا گیا ہے اور نہ ہی دیگر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ بریری گاؤں کے لوگ حکومت کی پالیسیوں سے بے حد مایوس ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔بریری گاؤں کے رہائشیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نئی ریاستی حکومت اس گاؤں کی طرف توجہ دے اور یہاں کی عوام کی مشکلات حل کرنے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ گاؤں کی حیثیت ایک اہم جغرافیائی مقام کی ہے، پھر بھی حکومتی ترجیحات میں بریری گاؤں کو کوئی خاص مقام نہیں دیا گیا۔ان افراد نے خاص طور پر نوشہرہ سے منتخب ممبر اسمبلی اور نائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنماسے اپیل کی کہ وہ اس گاؤں کی حالت زار کا نوٹس لیں اور اس علاقے کی ترقی کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ گاؤں سیاسی وعدوں کا حصہ بنتا ہے تو علاقے کی ترقی میں نمایاں فرق آ سکتا ہے۔بریری گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان اس حد تک ہے کہ مقامی طلباء کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کئی کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کا واحد اسکول انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ اسی طرح، صحت کی سہولتوں کی کمی کے باعث لوگ بیماری کی صورت میں نوشہرہ یا دیگر قریبی علاقوں میں جانے پر مجبور ہیں۔لوگوں نے مزید کہا کہ گاؤں کے کسانوں اور مویشی پالنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ گاؤں میں نہ تو کوئی وٹرنری سنٹر ہے اور نہ ہی کوئی زراعتی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کا براہ راست اثر مقامی معیشت پر پڑ رہا ہے، اور علاقے کے لوگ اس بحران کا شکار ہیں۔بریری گاؤں کے افراد کا کہنا ہے کہ وہ اب تک حکومت سے صرف وعدے ہی سنتے آئے ہیں، لیکن حقیقت میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔ انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس گاؤں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے اور یہاں کی عوام کے لئے جدید سہولتیں فراہم کرے تاکہ وہ بہتر زندگی گزار سکیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ گاؤں میں آبادی کا تناسب کم ہے، لیکن یہ علاقے کے اہم ترین گاؤں میں سے ایک ہے، اور یہاں کی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے جانے چاہیے۔ لوگوں نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بریری گاؤں کو نظرانداز کرنے کا یہ سلسلہ ختم کیا جائے اور اس کی ترقی کے لئے فوری طور پر وسائل مختص کیے جائیں۔بریری گاؤں کے لوگوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچے گی اور وہ جلد ہی اس گاؤں کی حالت بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائیں گے تاکہ یہاں کے لوگ بھی بہتر زندگی گزار سکیں۔