یو این آئی
پونے//راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے سرسنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ رام مندر بنانے سے کوئی ہندو لیڈر نہیں بن سکتا۔جمعہ کو پونے میں ‘وشواگورو بھارت’ کے لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا’’مذہب قدیم ہے اور مذہب کی شناخت سے ہی رام مندر بنایا گیا ہے۔ یہ سچ ہے لیکن صرف مندر بن جانے سے کوئی ہندئوں کا لیڈر نہیں بن سکتا۔ ہندو مذہب سناتن دھرم ہے اوراس سناتن اور سناتن دھرم کے آچاریہ سیوا دھرم کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ مانو دھرم کی طرح سیوا دھرم ہے۔ خدمت کرتے وقت ہمیشہ بحث سے دور رہنا ہماری فطرت ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ بغیر دکھاوے کے مسلسل خدمت کرتے ہیں، وہ خدمت کی خواہش رکھتے ہیں۔ سیوا دھرم پر عمل کرتے ہوئے ہمیں انتہا پسند نہیں ہونا چاہئے اور ملک کے حالات کے مطابق درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ انسانی دھرم کائنات کا دھرم ہے اور اسے خدمت کے ذریعے ظاہر ہونا چاہئے۔ ہم عالمی امن کا اعلان کرتے ہیں لیکن دوسری جگہوں پر اقلیتوں کی کیا حیثیت ہے؟ اس طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ پیٹ بھرنے کے لیے جو ضروری ہے، وہ کرنا چاہیے، لیکن گھر سے باہر جو کچھ بھی ہمیں ملا ہے، اس کا دوگنا خدمت کی صورت میں دینا چاہئے۔
مسلم سیاسی رہنمائوں کاخیرمقدم
عمل درآمد پر شک
یو این آئی
ممبئی //کئی سیاسی رہنمائوں ، خاص طور پر اپوزیشن نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے جس میں موہن بھاگوت نے کئی نئے مندر، مسجد تنازعات کے دوبارہ سر اٹھانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایودھیا رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل کو اٹھا کر ہندوں کے لیڈر بن سکتے ہیں اور کہا کہ اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا۔تاہم مسلم سیاسی رہنمائوں اور علما نے سنگھ پریوار اور اس سے منسلک تنظیموں کی کارروائیوں پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے سوال بھی اٹھایا ہے کہ سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والے آر ایس ایس کے نظریے کی پیروی کرنے والوں پر کاروائی کیوںنہیں کی جاتی۔کانگریس کے رہنما حسین دلوائی نے بھاگوت کے ریمارکس کی تعریف کی لیکن انہوں نے جاری سماجی تنا ئومیں آر ایس ایس کے کردار پر سوال اٹھایا۔
انہوں نے کہا’’موہن بھاگوت کا بیان درست ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف تشدد، ہجومی تشدد، ان کے گھروں کو مسمار کرنے اور دیگر جابرانہ کارروائیوں کا کیا ہوگا؟ یہ حرکتیں آر ایس ایس کے نظریے کی پیروی کرنے والوں کی طرف سے کی جاتی ہیں، انہیں روکنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا جاتا؟‘‘مہاراشٹر کانگریس کے رہنما نسیم خان نے بھی بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا لیکن اس پر عمل درآمد پر شک ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا’’اس طرح کے ریمارکس سننا اچھا لگتا ہے، لیکن ان کا کیا اثر ہوتا ہے؟ ہندوستان آج بڑے پیمانے پر تنازعات کا سامنا کر رہا ہے – مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہجومی تشدد جاری ہے، اور یہاں تک کہ آئین پر حملہ ہو رہا ہے‘‘۔این سی پی(ایس پی)کے رہنما اور سابق ایم پی مجید میمن نے بھی ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بھاگوت کے بیان کی تعریف کی، تاہم ایسے معاملات پر عملی طور پر خاطیوں کو سزا دلانے میں عدم دلچسپی اور کبھی کبھار روکاوٹ پیدا ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا۔