شہزادہ فیصل
بے حالی عجیب بے حالی!
نہیں، ایک سکوتِ دیرینہ کے بعد پھر سے خواہشات کا سیلاب اُمڈ آیا ہے اور اُس سکوت کو جسے دلِ ناداں اب تک ایک منزلِ مقصود سمجھ رہا تھا، پوری طرح سے مسمار کر چکا ہے۔ کیا کروں بار بار ایک ہی موڑ پر چلا آتا ہوں۔ ایک ہی دشمن، وہی وار اور بار بار میں ہی ہار جاتا ہوں۔ شاید اتنے مہینوں کی دانستہ مشقت جسے میں نے جان بوجھ کر آہستہ مزاج رکھا تھا اور جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ اس موڑ پر واپس نہ آؤں اور اگر آ بھی گیا تو کم از کم اسی منحوس نفسیات کا سامنا نہ ہو، اپنی موت مر چکی ہے۔ میں یہ مرثیۂ حال پہلی بار نہیں لکھ رہا۔ خوف تو بس اسلئے لگ رہا ہے کہ اپنا سب سے قوی ہتھیار، استقامت، پوری طاقت کے ساتھ استعمال کیا جا چکا ہے۔ نتیجہ، ایک ایسی ہار کہ جس کے اثرات کا سب سے نمایاں پہلو کٹاؤ ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ ہر اس چیز سے کٹ چکا ہوں جو مجھے معنی بخش رہی تھی۔ دنیا کی کسی بھی شئے کے ساتھ وابستگی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
سر تو یہ کہتا ہے کہ اب آگے کا راستہ کسی داخلی چراغ کا محتاج ہے لیکن دل کے پاس ابھی تک اس کا کوئی سراغ نہیں ہے۔
سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ یہ میری محدود سوچ کے دھوکے کا سماںہے یا پھر زندگی کے راستے کا کوئی سنگِ میل۔
کیا یہ مقام اتنا اہم ہے کہ اس پر بار بار لوٹ آنا لازمی ہے یا پھر میری ذہنی کاوشوں نے مجھے بیرون سے آزاد کر کے ایک غیر معلوم خلاء میں ہوا کے جھونکوں کے سہارے چھوڑ دیا ہے!
���
بخشی نگر، جموں،موبائل نمبر؛8492838989