عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر// پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے کشمیری دستکاریوں پر ٹیکس سلیب میں ممکنہ نظرثانی کی خبروں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام اس صنعت کو زبردست نقصان پہنچائے گا۔
جموں و کشمیر حکومت نے اس معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے یونین وزارت برائے تجارت و صنعت کو موجودہ جی ایس ٹی کی شرح 12 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی درخواست پہلے ہی بھیج دی ہے۔
سجاد لون نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر اپنے پیغام میں کہا، “مجھے امید ہے کہ شالوں پر جی ایس ٹی میں اضافہ نادانستہ طور پر کیا گیا ہوگا۔ کشمیری شال ہماری تاریخ کا مظہر اور ہماری فنکاری کی نمائندہ ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صنعت ہزاروں ہنر مند کاریگروں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا، “ایک ایسے دور میں جب مشینوں کا غلبہ ہے اور مصنوعی ذہانت نوکریوں کے لیے خطرہ بن رہی ہے، یہ ہنر مند ہاتھ ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان کی مسابقت کو زیادہ ٹیکس سلیب کے ذریعے کمزور کرنا مناسب نہیں”۔
ہندوارہ سے رکن اسمبلی سجاد لون نے کہا، “ان ہنر مند ہاتھوں پر ٹیکس لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ زیادہ ٹیکس سے طلب کم ہوگی، سپلائی متاثر ہوگی، اور کئی کاریگر بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہ صنعت کے لیے ایک سنگین نقصان ہوگا۔ میری اپیل ہے کہ اس صنعت کو سب سے کم جی ایس ٹی ٹیکس سلیب میں رکھا جائے تاکہ اسے فروغ دیا جا سکے”۔
دوسری جانب، سرکاری ترجمان نے کہا کہ جموں و کشمیر حکومت کشمیری دستکاری اور ہینڈلوم سیکٹر کے مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے، کیونکہ یہ لاکھوں کاریگروں کی روزی روٹی سے منسلک ہے۔
ترجمان نے واضح کیا کہ جموں و کشمیر حکومت نے یونین وزارت برائے تجارت و صنعت سے درخواست کی ہے کہ جی ایس ٹی کی موجودہ شرح کو کم کرکے 5 فیصد کیا جائے، خاص طور پر ان شالوں کے لیے جن کی قیمت ایک ہزار روپے سے زائد ہو، تاکہ کاریگروں پر ٹیکس کا بوجھ کم ہو اور ان کی مصنوعات کی مسابقت میں اضافہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کشمیری دستکاریوں کو ایک محنت کش صنعت قرار دیا اور کہا کہ یہ 80 فیصد انسانی افرادی قوت پر مشتمل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی منڈی میں مشین سے بنے نقلی مصنوعات کے ساتھ سخت مقابلے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس صنعت کی بحالی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔