سمینہ اختر ،سرینگر
تاریخ گواہ ہے کہ قبل از اسلام عورت کی کوئی عزت و تکریم نہ تھی۔نبی اکرم ؐ نے اُس معاشرے میں عورت کو عزت سے نوازجو معاشرہ ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا تھا۔جس معاشرے میں عورت کی خریدو فروخت کی جاتی تھی اُس معاشرے میںعورت کا پیدا ہونا ہی گناہ تصور کیا جاتا تھا،بیٹی کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھامگر پیارے نبی رحمتؐ نے عورت کو اعلیٰ رُتبہ اور وہ مقام دیا جو کسی دین نے ،کسی مذہب نے نہ دیا۔عورت کو جائیداد میں وارث مقرر کیا ،عورتوں کے حقوق متعین کئے۔جس معاشرے میں عورت کو ایک غلام ایک باندی کی حیثیت دی جاتی ،اُس بے حس معاشرے میں عورت کو عزت کا مقام دیا۔نکاح مقرر کیا عورتوں پر تشدد سے روکا گیا۔بیٹی کی پیدائش پر شرمندگی کے بجائے رحمت کے لقب سے نوازا گیا۔نبی پاکؐ نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایاکہ عورتوں پر ظلم نہ کرو، عورتوں کی حقوق بتائے ،عورت کو شرمندگی کے بجائے پاکیزگی سے تشبیہ دی اورعورت پر پردہ واجب کیا گیا۔قبل از اسلام عورت کی کوئی ازدواجی حیثیت نہ تھی،اگر باپ مر جاتا تو اسکی بیوہ اسکے سوتیلے بیٹوں کی جائیداد سمجھی جاتی۔عورت پر تشدد روا رکھا جاتا تھا۔نبی اکرمؐ ؐنے مطلقہ عورت سے نکاح کیاجبکہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اگر کسی عورت کا خاوند مر جاتا تو اُس بیوہ کو دوسرے نکاح کی اجازت نہیں تھی اور اسے منحوس سمجھا جاتاتھا۔ہندؤں میں خاوند کے مر جانے کی صورت میں عورت کو بھی خاوند کے ساتھ جلا دیا جاتا۔مگر یہ دین اسلام ہی ہے جس نے عورت کی عزت میں چار چاند لگائے۔عورت کو جائیداد سے حصہ دیا،نکاح میں اپنی مرضی ظاہر کرنے کا حق دیا اور تشیح نکاح کا حق دیا۔عورت کا مہر مقرر کیا،عورت کو گھر کی ملکہ کہا۔عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی۔نبی اکرم ؐ نے فرمایاجنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔عورت کو وہ مقام دیا جس کی وہ حقدار تھی۔چودہ سو سال قبل اسلام نے جو مقام عورت کو دیا ،آج کا معاشرہ اس سےکوسوں دور ہے۔ایسا لگتا ہے کہ موجودہ دور پھر زمانہ جاہلیت میں دوبارہ داخل ہو رہاہے اور بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جا تاہے اور اسے نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھا جا رہاہے ۔آج کے اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی مختلف طریقوں سے عورت پر مظالم جاری ہیں۔کہیں جائیداد کے لالچ میں لڑکی سے شادی کی جا رہی اورغریب لڑکیوں کو ٹھکرایا جاتاہے۔جہیز نہ ہونے کے باعث کئی لڑکیوں کو خود کشی پر مجبور کیا جارہا ہے ۔کہیں جائیداد کی بندر بانٹ میں بہن کو خارج کیا جاتا ہے تو کہیں پسند کی شادی پر قتل کیا جا رہا ہے۔ کہیں بنتِ ہوا کی برہنہ ویڈیو بنا کر اس کی عزت تار تار کی جا رہی ہے تو کہیں عورت کو سرِ بازار نیلام کیا جا رہا ہے۔کہیں بیٹی پیدا ہونے پر اُسے لتاڑا جاتا ہے تو کہیں بیٹی کو جنم دینے کی وجہ سے طلاق دی جا رہی ہے۔کہیں بانجھ کہہ کر طلاق دی جا رہی ہے تو کہیں جہیز نہ لانے پر پٹرول چھڑک کر جلایا جا رہا ہے۔کہیں اپنی جنسی خواہشات کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہےتو کہیں تیزاب پھینک کر عور ت کے نسوانی حسن کو برباد کیا جارہا ہے۔کہیں دفتروں میں کام کرنے والیوں کی عزت داؤ پر ہے تو کہیں گلی کوچوں کے اوباشوں کی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔کہیں چادر کھچی جارہی ہے تو کہیں چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا جارہا ہے۔کہیں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھ کر تو کہیں باندی کے طورپر طلاق سے زیر کیا جارہا ہے۔کہیں سوشل میڈیا پر ورکر خواتین کے چہرے کی ایڈیٹنگ کرکے عورت کا تقدس پامال کیاتو کہیں کمسن بچی سے اجتماعی زیادتی کی جارہی ہے اور یہ سفاک جنسی درندے انسانیت کو شرمسارکررہے ہیں۔عورت جائے توجائے کہاں؟آخر کیوں بھول گئے آج کے مسلمان کہ اسلام نے عورت کو کیا رتبہ دیاہے۔آج بھی بیشتر لوگ عورت کو غلام اور باندی سمجھ رہے ہیں۔معاشرے کی دوڑ میں اگر عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہے تو اسے آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریم ؐ کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت بی بی خدیجہؓ ایک خاتون تاجر تھیںاورجناب نبیؐ نے پہلا نکاح اُن ہی سے کیا۔کیا عورت کا کام کرنا غلط ہے، جب نبی پاکؐ کی زوجہ محترمہ تاجر تھیں تو کیا نبی پاکؐ نے انہیں کبھی تجارت سے منع فرمایا، ہر گز نہیںبلکہ نبی کریم ؐحضرت خدیجہؓ کے ساتھ تجارت کیا کرتے تھے۔آج اگر ایک خاتون کا م کرنا چاہتی ہے تو اسکے راستے میں ہزاروں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔مختلف صورتوں میں عورت کو تنگ کیا جاتا ہے اور مختلف طریقوں سے اُسے تذلیل کیا جاتا ہے ۔عورت ذات کو آج بھی کئی لوگ گھر میں قید رکھنے والی چیز سمجھتے ہیںیا جو عورت کا م کرتی ہے اسے غلط زاویے سے دیکھا جانا لوگوں کا وطیر ہ بن گیا ہے۔عورت کی جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے مختلف قسم کے حیلے بہانے کئے جاتے ہیں۔اسے سالوں گھروں میں بٹھا رکھتے ہیں۔کہیں جہیز نہ ہونے سے ایک غریب کی بیٹی سے کوئی شادی نہیں کرتا۔غرض یہ کہ آج کے اس مادی دور میں عورت بے پناہ قربانیا ں دے رہی ہے۔اپنے گھر کے لئے،خاوند کے لئے ،بچوں کے لئے کام کرنے والی خاتون اپنا گھر سنبھالتی ہے،بچے پالتی ہے اور خاوند کے نازنخرے بھی برداشت کرتی ہے۔میں یہاں یہ کہنا چاہوں گی تما م مرد ایسے نہیں جو عورت کی عزت نہ کرتے ہوں لیکن یہ بھی سچ ہے زیادہ تر مر د عورت کو پاؤں کی جوتی اور تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ عورت بیٹی کے روپ میں ہے تو باپ کی عزت ،بیوی ہے تو شوہر کی غیرت،بہن ہے تو حرفِ دعا،ماں ہے تو سراپا دعااورجنت کا راستہ۔