عظمیٰ نیوز ڈیسک
فتح پور// اتر پردیش کے فتح پور ضلع میں موجود 180 سال قدیم نوری جامع مسجد کے ایک بڑے حصہ پر انتظامیہ نے بلڈوزر چلا دیا۔ ضلع انتظامیہ نے اس تعلق سے پہلے ہی نوٹس جاری کیا تھا اور 10دسمبر کو سخت سیکورٹی کے درمیان انہدامی کارروائی انجام دی گئی۔ اس درمیان تقریباً 2500افراد کو احتیاطاً گھروں میں نظر بند کیے جانے کی اطلاع بھی مختلف میڈیا رپورٹس میں دی گئی ہے۔میڈیا ذرائع کے مطابق نوری مسجد کے مبینہ قبضہ والے حصہ کو توڑنے کی کارروائی صبح تقریبا ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوئی۔ اس سے قبل تقریباً 500میٹر علاقہ کو سیل کر دیا گیا اور کسی کو وہاں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ پورے علاقے کی ڈرون کیمرے سے نگرانی بھی کی جا رہی تھی۔ ایک میڈیا رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 5 بلڈوزر غیر قانونی طور پر تعمیر حصے کو توڑنے میں استعمال ہوئے۔ جب یہ کارروائی ہو رہی تھی تو ڈی ایس پی سمیت کئی تھانوں کی فوج موجود تھی۔ علاوہ اذیں آر اے ایف کی ٹیم بھی موقع پر دیکھی گئی۔اس کارروائی سے متعلق ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ باندا ساگر روڈ پر للولی شہر میں موجود مسجد پر بلڈوزر چلایا گیا کیونکہ 2نوٹس جاری کیے جانے کے باوجود کمیٹی کے ذریعہ قبضہ کو نہیں ہٹایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جس حصہ کو توڑا گیا ہے، اس کی تعمیر گزشتہ 3 سالوں میں باندا-بہرائچ روڈ پر مسجد کی توسیع کرنے کے مقصد سے کی گئی تھی۔ اس سے سڑک کے چوڑاکاری منصوبہ میں رکاوٹ پیدا ہو گئی تھی۔واضح رہے کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے پی ڈبلیو ڈی محکمہ نے ایک ماہ قبل نوٹس دیا تھا۔ یوپی حکومت کا کہنا ہے کہ فتح پور ضلع کے بہرائچ-باندا روڈ(ایس ایچ13) کو چوڑا کرنے کے لیے پی ڈبلیو ڈی سڑک کنارے موجود غیر قانونی تعمیرات کو ہٹا رہا ہے۔ آج للولی میں نوری مسجد انتظامیہ کمیٹی کے ذریعہ کی گئی ناجائز تعمیرات کو خیر سگالی والے ماحول میں ہٹایا گیا۔ یہ بھی جانکاری دی گئی کہ ناجائز تعمیرات سے متعلق پی ڈبلیو ڈی نے 17 اگست کو کمیٹی کے نام نوٹس جاری کیا تھا۔ 24 ستمبر کو پی ڈبلیو ڈی نے ناجائز تعمیرات کو ختم کرنے کی مہم چلائی تھی، اس وقت مسجد انتظامیہ کمیٹی نے کہا تھا کہ وہ ناجائز تعمیرات کو خود ہی توڑ دیں گے، لیکن ایسا نہیں کر سکے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے اس پورے معاملے میں عدالت کا رخ کیا تھا اور معاملہ زیر سماعت بھی تھا، لیکن اسی درمیان انہدامی کارروائی کو انجام دے دیا گیا۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔
اس عرضی میں کہا گیا تھا کہ مسجد کی تعمیر 1839 میں ہوئی تھی، ہم نے کسی طرح کا قبضہ نہیں کیا ہوا ہے۔ اس معاملے میں 6 دسمبر کو سماعت ہونی تھی، لیکن کسی وجہ سے سماعت ملتوی ہو گئی۔ اب اس معاملے پر 13 دسمبر کو سماعت ہونی ہے، لیکن مسجد کا ایک حصہ تو اب توڑا جا چکا ہے۔