لطیف تانترے
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کرہ ٔارض پر جب سے حیات انسانی کی ابتدا ہوئی ہے، تب سے لے کر آج تک انسان کے لئے خود اپنے آپ کی حقیقت ہی توجہ کامرکز رہی ہے۔ انسان روزِ اول سے ہی اپنے آپ سے متعارف ہو کر اپنی معرفت اور مخلوق کائنات میں اپنے ممتاز و منفرد مقام کے پیچھے چھپی حکمت کو سمجھنے کا متمنی رہا ہے۔ وہ اپنی تخلیق کے تناظر میں اس کارگاہِ حیات میں اپنے کردار کی معرفت چاہتا ہے ۔ وہ اپنی جسمانی ساخت سے لے کر ذہنی وسعتوں تک، بشری تقاضوں سے لیکر سماجی ضرورتوں تک، بدنی رکاوٹوں سے تخلیقی عروج تک، نفسانی خواہشات سے لیکرروحانی بیداری تک کے اپنے اسفار کا خلاصہ چاہتا ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک مبنی برحقیقت ہے کہ ان دونوں کائناتوں کی تسخیر کا حصول علم کے بغیر مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ لہٰذا ہمارے علم کا تعلق بھی ہر شے سے ہونا کوئی ناقص فعل نہیں۔ یہ زمین اور آسمان، چاند اور سورج، ستارے اور سیارے، سمندروں کی وسعت، دریاؤں کی روانی،موجوں کی طغیانی، آبشاروں کا ترنم، قُمریوں کا تکلم،کلیوں کا تبسم،شمس و قمر کا طلوع و غروب ، شجر حجر کی شادابی، برگ و ثمر کی رنگینی، الغرض پوری کائنات ہست و بود سب کچھ خلق ہے اور علم انسان کو ان سب چیزوں کی معرفت کرانے کا بنیادی جز ہے۔ تاہم علم کے سود مند ہونے اور نہ ہونے کا احتمال بھی انسان کے لیے ایک باعث فکر عُقدہ ہے۔ اس عقدۂ دشوار کا حل نکال کر اگر آج کا تعلیمی نظام کام کرنا شروع کرے تو دورِ حاضر کی سماجی بدحالی ،اخلاقی پستی ،سیاسی اقربہ پرستی ،خاندانی بکھراؤ، ذہنی انتشار، ذخیرہ اندوزی، مکر و فریب کاری جیسی کثیرِ بد افعالیاں ،خوشحالی، بلندی، انصاف، یکجہتی، سکون ، امانت داری اور سچائی میں بدل کر ایک مثالی دنیا تعمیر کی جا سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تعلیم فراہم کرنے والے اور تعلیم حاصل کرنے والے دونوں فریق اس لازمی امر کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنے سے خوفزدہ نظر آرہے ہیں۔ حالانکہ آج کے اس دور میں اس عُقدۂ دشوار کا حل ڈھونڈنے کے لیے آج انسان کے پاس کثیر وسائل کی بدولت سینکڑوں نہیں ، ہزارہا سال کی فلسفیانہ دلائل، ادیانی فہم اور سائنسی تحقیق سے اخذ شدہ مواد موجود ہے۔ بس اس جانب پلٹنے اور نظام کو اس ڈگر پر چلانے کی دیر ہے ۔ اگر سرد مہری کے ساتھ بے تعلقی برقرار رہی تو ممکن ہے کہ یہ رجحان دنیا کی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں کی فہرست کا اول باب بن جائے ۔ اگر ہم علم تاریخ کے ذریعے اللہ کے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں سے متعارف ہوتے ہیں تو دوسری طرف یہی مضمون ہمیں اللہ کے دھتکارے ہوئے فرعونوں، نمرودوں اور قارونوں سے بھی متعارف کرا رہا ہے۔ جہاں ہمیں ملک و ملت کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے والے جانثاروں سے متعارف کرایا جاتا ہے، وہیں ملک و ملت کے غداروں کی عیاریاں بھی معلوم ہو رہی ہیں۔ جہاں رزق حلال پر توکل کرنے والے عزت نفس کے پاسبانوں کی کہانیاں ہیںوہیں حرص ولالچ میں مبتلا عزت نفس کوطاق پر رکھنے والے بے غیرتی کے نمونوں کی بھی مثالیں موجود ہیں ۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ مختلف النوع علوم میں سے بہت سارے علوم ایسے ہیں، جن کے غلط استعمال سے تاریخ کے ان فرعونوں نے انسانیت پر ناقابل دید مظالم ڈھائے ہیں، لہٰذا یہ ایک ضروری امر ہے کہ موجودہ نظام تعلیم کے ذمہ داران ایک ایسا نظام مرتب کریں جو ہماری موجودہ اورآنے والی نسلوں کو علم نافع سے منور کرنے اور علم ضرر رساں سے بچانے کی سبیل سے مربوط ہو اوراس ضمن میں اب تک کے پیش کردہ مقاصد حصول علم میں سب سے اعلیٰ اور عرفہ مقصد ہی اس بنیاد کا حقدار ہے۔ یونانی مفکرین کے مطابق خوشی اور مسرت انسانی زندگی کا منزل مقصود ہے یعنی ہر انسان خوشی اور مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ جب انسان کو لذت حاصل ہوتی ہے ،تبھی اس کو مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ ما حصل جسمانی اور حسی لذات تک محدود ہے تو اس سے اخلاقی قباحتیں اور تباہیاں پیدا ہونے کے قوی امکان ہیں ۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ لذت رسانی کا رجحان انسان میں فطری طور موجود ہے مگر اس کے دو ہی نہیں بلکہ تین مدارج ہیں ،لذات جسمانی ،لذات حسی اور لذات روحانی۔ لذات جسمانی سے مراد وہ لذتیں ہیں جو انسان کے جسم کو آرام و سکون فراہم کرتی ہیں۔ اسی طرح جو لذتیں انسانی ذہن کو قرار اور سکون مہیا کرتی ہیں لذات حسی کہلاتی ہیں ۔ فطرت انسانی کا یہ بڑا دلچسپ پہلو ہے کہ جسمانی لذت کے حصول کے لیے ایک انسان بڑی مشقت کرتا ہے لیکن جس آن اسے لذت ذہنی میسر آتی ہے تو وہ جسمانی لذات کو بھول جاتا ہے یا نظر انداز کر دیتا ہے۔ لذات ِحسی سے انسان اتنا مست اور مگن بھی ہو جاتا ہے کہ لذات جسمانی سے مستفید ہونا تو دور وہ جسمانی اذیت کی بھی پرواہ نہیں کر پاتا ۔اگرچہ ان دونوں لذتوں کا حصول انسانی بقاء کے لیے کسی حد تک ضروری ہے لیکن تعین لذات میں نفس و اذہان بے لگام ہو کر قبیح اور نیچ حد تک جا سکتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے بھی نیچ اور گھٹیا طریقہ کار استعمال ہو سکتے ہیں ۔ البتہ فطری طور جو روحانی لذات پانے کا جذبہ انسان میں موجود ہے ۔ان لذات کا تعین بھی فطری طور پاک ہوتا ہے ۔ لہٰذا اگر حصول لذات کو حصول علم کا اصلی مقصد قرار دینا ہوگا تو وہ لذات روحانی ہونی چاہییں۔
تشکیل نظام تعلیم میں تعین مقصد کے بعد حصول مقصد کا طریقہ کار پیش کرنا ایک لازمی امر ہے اور اس سلسلے میں افضل ترین طریقہ کار انسان کے فطری داعیات کو ملحوظ خاطر لا کر ہی مرتب کیا جا سکتا ہے ۔ تخلیق انسان کے عمل سے یہ بات صاف طور سے عیاں ہے کہ انسان ناسوتی اور ملکوتی داعیات کا سنگم ہے۔ جہاں آدم کا جسمانی پیکر بدبودار سیاہ گاڑھے مادے کو سکھا کر تیار کی گئی بجتی مٹی ، آگ، ہوا اور پانی کا مرکب ہے ،وہیں اس میں پھونکی گئی ملکوتی شے روح بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیکر آدم کی خمیر کے عناصر کی تاثیر کو شر، فساد، تکبر، پستی وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور آدم کی ملکوتی شخصیت کی تعظیم ملائکہ سے کرائی جا رہی ہے۔ اس بنا پر انسانی فطرت ایک تضاد سے دوچار رہتی ہے۔ انسانی فطرت کے یہ دو پہلو فطرت بالقوہ اور فطرت بالفعل کہلاتے ہیں ۔ فطرت بالقوہ سے مراد وہ فطری احساسات ہیں جو ہر انسان کے اندر خلقی طور پر مضمر ہوتے ہیں۔ خواہ وہ جہاں بھی جس ماحول میں بھی پیدا ہو وہ اقرار الوہیت ، فجور و تقویٰ کےامتیاز، خود احتسابی اور اعمال پر جواب دہی جیسے فطری احساسات رکھتا ہے اور یہ فطری احساسات یا فطرت بالقوہ کے تقاضے انسان کے لاشعور پر غالب رہتے ہیں ۔دوسری طرف فطرت بالفیل سے مراد وہ نفسانی خواہشات اور طبعی داعیات ہیں جن کا ظہور ہر انسان کی زندگی میں ہوتا ہے شہوانی خواہشات اور نفسانی داعیات۔ اولاد اور خونی قرابتوں سے محبت ، مال اور زر کی محبت اور جاہ و منصب کی محبت فطرت بالفعل کے لوازمات میں شامل ہیں اور ان کی تکمیل کی صورتیں مختلف اور متعدد ہو سکتی ہیں۔ جب فطرت بالفعل کے تقاضے کام کرتے ہیں تو جبلی داعیات اور نفسانی خواہشات کے طور پر یہ انسان کے شعور کو متاثر کرتے رہتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ انسانی لاشعور عام طور پر تقاضائےنیکی سے متاثر اور مغلوب رہتا ہے اور انسانی شعور نفسانی داعیات یعنی بدی سے متاثر رہتا ہے۔ یہاں پر نفس انسانی ایک کشمکش کی صورتحال سے دو چار ہوتا ہے۔ شعور و لا شعور کے تقاضوں کی یہ جنگ اس کا دماغی توازن بھی متاثر کر سکتی ہے اور نظام تعلیم و تربیت کا اصل طریقہ کار اس جنگ میں انسان کی ڈھال بننے پر منتج ہونا چاہیے۔ یہ عمل تب ہی ممکن ہے جب دونوں میں سے کسی ایک کو فروغ اور نشو نما دیا جائے۔ اگر ایک تقاضہ نشوونما پالے تو دوسرا از خود مغلوب ہو کر اس کے تحت منظم اور منضبط ہو جائے گا ، ان میں سے کسی ایک کو بھی کلیتا ًختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی ایک تقاضے کی تکمیل کلیتا ًرد کی جا سکتی ہے ۔ لہٰذا شخصیت کے توازن کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک کو دوسرے پر غالب کر کے مغلوب تقاضے کی تکمیل بھی نظم و ضبط کے ساتھ جاری رہے۔ اگر تقاضائےشعور جو جسمانی داعیات پر مبنی ہیں غالب آ جائے اور لاشعور کے تقاضائےنیکی مغلوب ہو تو شخصیت منفی طرز پر ڈھل جائے گی اور اگر تقاضائے لاشعور جو نیکی کے احساسات پر مبنی ہیں، غالب آ جائیں اور شعور کے تقاضائے بدی مغلوب ہو تو شخصیت مثبت طرز پر ڈھلے گی اور یہ مطابقت تعمیری نوعیت کی ہوگی ۔ پس مطلوبہ تعلیمی نظام کا کام یہ ہونا چاہیے کہ تقاضائے نیکی کو اس قدر فروغ اور نشو نما دی جائے کہ تقاضائےبدی اس کے ماتحت منظم ہو کر اپنی تکمیل کر سکیں ۔
رابطہ۔7006174615
[email protected]
����������������