یو این آئی
سرینگر// اپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے ٹیکسٹائلز پر جی ایس ٹی میں 28 فیصد تک کے اضافے کی تجویز پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس پر عمل در آمد ہوا تو اس کے نتیجے میں کشمیر کی شال بافی، کریول ایمبارڈری اور اس طرح کی دیگر دستکاریوں کو شدید دھچکہ پہنچے گا اور بالآخر اس کا خمیازہ کاریگروں کو اٹھانا پڑے گا۔
قابل ذکر ہے کہ ٹیکسٹائلز پر اٹھائیس فیصد تک جی ایس ٹی اضافے کی تجویر حال ہی میں گروپ آپ منسٹرس کی میٹنگ، جس کی صدارت بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سمرت چودھری نے کی تھی، میں پیش کی گئی ہے اور اس پر 21 دسمبر کو ہونے والی 55 ویں جی ایس ٹی کونسل میٹنگ کے دوران غور کیا جائے گا۔
اپنے بیان میں سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ٹیکس اضافے سے کشمیری شالوں، کریول اور دیگر روایتی ٹیکسٹائل کی صنعت پر منفی اثر پڑے گا۔
انہوں نے کہا، ”ٹیکسٹائلز پر 28 فیصد تک کا مجوزہ جی ایس ٹی اضافہ، اگر لاگو ہوتا ہے، تو غریب کاریگروں بالخصوص وادی میں شالوں، کریویل اور دیگر روایتی کپڑوں کی بنائی کا کام کرنے والوں کو متاثر کرتے گا۔ ان کی روزی روٹی پر اثر پڑے گا۔ میں مرکزی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ دستکاروں کے وسیع تر مفاد میں اس تجویز کو منظور نہ کرے۔“
اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری، جو جموں و کشمیر کے وزیر خزانہ بھی رہے ہیں، کو ٹیکسٹائل پر جی ایس ٹی میں مجوزہ اضافے کے بارے میں، کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے ایک ری پریزنٹیشن کے ذریعے مطلع کیا ہے اور ان کی گزارش کی ہے کہ وہ اس معاملے کو مرکزی سرکار کےس اتھ اٹھائیں۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے کہا کہ گروپ آف منسٹرز کی میٹنگ میں ٹیکسٹائلز پر جی ایس ٹی کی شرح میں نمایاں اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس کے مطابق 1,500 روپے سے 10,000 روپے کے درمیان کی اشیائ پر 18 فیصد ٹیکس لگے گا، جب کہ 10,000 روپے سے زیادہ کی قیمت والے ٹیکسٹائل 28 فیصد تک جی ایس ٹی لگے گا۔ اس تجویز پر اگر عمل ہوا تو کشمیر کی روایتی ٹیکسٹائل سے جڑے اڑھائی لاکھ کاریگر، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، متاثر ہوں گے۔
چیمبر کا کہنا ہے کہ ”اگر جی ایس ٹی کی شرح کو بڑھا کر 28% کیا جاتا ہے تو مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے یہ سامان گھریلو اور بین الاقوامی صارفین کے ایک بڑے حصے کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ اس سے مانگ میں زبردست کمی آئے گی، جس سے پیداوار اور فروخت براہ راست متاثر ہوگی۔ صنعت میں آنے والی سست روی بہت سے کاریگروں کو بے روزگار کر دے گی، جس سے اس شعبے کو فروغ دینے اور اسے برقرار رکھنے کی برسوں کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔“