یو این آئی
دمشق //اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں جاری لڑائی میں اضافے سے صرف ایک ہفتے میں دو لاکھ 80 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔صدر بشارالاسد کی فوج کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں نے حمص اور دارہ شہر پر بھی قبضہ کرلیا۔ باغیوں کی دارالحکومت دمشق کی جانب پیش قدمی جاری ہے اور باغی بشار الاسد کی فوج کو مسلسل پیچھے ہٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق باغی گروہ حیات التحریر الشام کے جنگجو وسطی شہر حمص پر بھی قابض ہوچکے ہیں اور شامی فوج شہر چھوڑ کر جاچکی ہے ۔غیر ملکی میڈیا کا بتانا ہے کہ باغی جنگجو اب 2011 کے عرب بہار تحریک کے مرکز دارہ صوبے میں داخل ہو چکے ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق باغیوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج نے ایک ڈیل کے تحت پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور انہیں دار الحکومت دمشق تک محفوظ راستہ دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف باغیوں کی دمشق کی جانب پیش قدمی جاری ہے تو دوسری طرف ہزاروں لوگ نئی خانہ جنگی کے باعث اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) میں ایمرجنسی کوآرڈینیشن کے سربراہ سمیر عبدالجابر نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ 27 نومبر سے اب تک ہمارے سامنے 2 لاکھ 80 ہزار بے گھر افراد موجود ہیں، اس میں ان لوگوں کی تعداد شامل نہیں ہے جو حالیہ کشیدگی کے دوران لبنان سے فرار ہو ئے تھے۔طویل خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملک شام میں حیات طاہر الشام (ایچ ٹی ایس) کے جنگجوؤں کی جانب سے ایک ہفتے تک جاری رہنے والے حملوں کے دوران بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔حال ہی میں پڑوسی ملک لبنان میں دو ماہ تک جاری جنگ میں وقفہ آیا ہے، اس دوران لبنان سے بھی سیکڑوں لوگوں نے شام کی جانب نقل مکانی کی تھی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز باغی گروپ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے کہا تھا کہ ان کا مقصد بشارالاسد کا تختہ الٹنا ہے، سی این این کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جب بات ہمارے ’انقلاب‘ کے مقاصد کی کی جائے تو ہم شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنے آئے ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ شام میں حالیہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد 13 سال قبل یہاں ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سب سے زیادہ ہے، جو پہلے ہی کئی سالوں سے متاثر ہیں۔سمیر عبدالجابر نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیمیں ان مقامات تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں لوگوں کو امداد کی ضرورت ہے، اس ضمن میں ہم محفوظ راستے بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ان لوگوں تک امداد پہنچ سکے جو اس کے مستحق ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بے گھر ہونے والے افراد کو کئی دن یا ا?ئندہ کئی ماہ تک اسی حالت میں رہنا پڑ سکتا ہے، اسی لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر مزید فنڈز بھی درکار ہیں، اگر موجودہ صورت حال جاری رہی تو توقع ہے کہ 15 لاکھ لوگ بے گھر ہوجائیں گے اور انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہوگی۔جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ ’ہم پہلے ہی شمال مشرقی شام پر قبضہ کرچکے ہیں، اب ہمارا رخ مشرقی علاقوں کی جانب ہے، جہاں سے سابق شامی فوج کے اہلکار نکل کر جاچکے ہیں۔شام میں انسانی حقوق کے مبصر گروپ (ایس او ایچ آر) کے مطابق شام کی فوج اور اس کے ایران کے حمایت یافتہ اتحادی ’اچانک‘ دیر ایزور صوبے سے دستبردار ہوگئے، کیونکہ القاعدہ سے وابستہ گروپ کی قیادت میں ایک کارروائی نے صدر بشار الاسد کی حکومت کو شمالی اور وسطی علاقوں میں ’حیران کن‘ نقصانات پہنچائے ہیں۔شامی فورسز (سیریئن ڈیموکریٹک فورسز) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبہ دیر ایزور میں ہم نے اپنے عوام کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے فوجیوں کو دیر ایزور شہر اور دریائے فرات کی مغربی سمت میں تعینات کیا ہے، عرب اکثریتی کونسل کی حمایت شامی ڈیموکریٹک فورسز کے ساتھ ہے۔صوبہ درعا 2011 میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بغاوت کا مرکز تھا، لیکن 2018 میں اسد کے اتحادی روس کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ حکومت کے کنٹرول میں واپس آگیا تھا۔
روسی اور امریکی شہریوںکو شام چھوڑنے کی ہدایت
یو این آئی
واشنگٹن// امریکی محکمہ خارجہ نے ایک سیکیورٹی وارننگ جاری کرتے ہوئے امریکی شہریوں سے شام چھوڑنے کی درخواست کی ہے ۔ محکمہ خارجہ امریکی شہریوں سے درخواست کرتا ہے کہ وہ شام چھوڑ دیں، جبکہ دمشق میں تجارتی ذرائع دستیاب ہیں۔”بیان میں مزید بتایا گیا کہ دمشق میں امریکی سفارت خانے نے 2012 میں اپنا کام معطل کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ امریکی حکومت شام میں امریکی شہریوں کو قونصلر خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔بیان میں یہ بھی کہا گیا، “چیک جمہوریہ شام میں امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والی قوت کے طور پر کام کرتا ہے ۔”ادھرروس نے اپنے شہریوں کو فوری طور پر شام سے نکلنے کے لیے کہہ دیا ہے ۔ روس کا اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے یہ بیان جمعہ کے روز سامنے آیا ہے ۔یہ ہدایت شام میں اپوزیشن کے مختلف شہروں پر حملوں اور قبضے کی خبروں کے تناظر میں کی گئی ہے ۔واضح رہے روس شام کی بشار الاسد حکومت کا اہم اتحادی ہے ۔جمعہ کو دمشق میں روسی سفارت خانے نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ کمرشل فلائٹس پکڑیں اور شام سے نکل جائیں۔ کیونکہ شام میں فوجی اور سیاسی حوالے سے صورت حال مشکل ہو گئی ہے ۔
ایرانی فوجیوں کا انخلاء شروع
تہران/یو این آئی/ ایران نے شام سے اپنے فوجی لیڈروں اور اہلکاروں کو نکالنے کی پہل کی ہے ۔نیویارک ٹائمز نے علاقائی اور تین ایرانی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ دی ہے ۔مبینہ طور پر ہمسایہ ممالک عراق اور لبنان میں نکالے گئے لوگوں میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آرجی سی) کی ایلیٹ قدس فورس کے اعلیٰ کمانڈر بھی شامل ہیں۔اخبار نے بتایا کہ انخلاء میں آئی آر جی سی کے ارکان، کچھ ایرانی سفارتی عملہ، ان کے اہل خانہ اور ایرانی شہری بھی شامل ہیں۔نکالے جارہے لوگوں میں کچھ مبینہ طورپر ہوائی جہاز کے ذریعے تہران کے لیے روانہ ہو رہے ہیں، جب کہ دیگر لبنان، عراق اور شام کی بندرگاہ لاذقیہ تک پہنچنے کے لیے زمینی راستے استعمال کر رہے ہیں۔حیات تحریر الشام دہشت گرد گروہ (جو پہلے نصرہ فرنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا اور روس میں ممنوع قرار دیا گیا تھا) اور کئی دوسرے مسلح گروپوں نے 29 نومبر کو شمال مغربی علاقے کے شمال سے پیش قدمی کرتے ہوئے شامی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ ادلب حلب اور حما شہروں کی طرف ایک دن بعد، شام کا دوسرا سب سے بڑا شہرحلب2011 میں ملک میں تنازع کے آغاز کے بعد پہلی بار عسکریت پسندوں کے مکمل کنٹرول میں آگیا۔شام کی وزارت دفاع نے 5 دسمبر کو کہا کہ شامی مسلح افواج عسکریت پسندوں کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد حما شہر سے ہٹ گئی ہیں۔
امریکہ کا آئی آر جی سی کے ٹھکانوں پر حملے کا حکم
واشنگٹن/یو این آئی/ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ نومبر میں شام پر اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی) کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے دو بار حملے کرنے کا حکم دیا تھا۔مسٹر بائیڈن نے امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے رہنماؤں کو لکھے ایک خط میں کہا، “میں نے گزشتہ ماہ 11 نومبر اور 26، نومبر 2024 کو شام میں ایران کی اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی) اور اس سے منسلک ملیشیا گروپوں کی جانب سے ہیڈکوارٹر ، “کمانڈ، کنٹرول، ہتھیاروں کے ذخیرہ، تربیت، لاجسٹک سپورٹ اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی سہولیات کے خلاف الگ الگ حملے کرنے کی ہدایت دی ۔”انہوں نے کہا کہ یہ حملے شام میں امریکی اہلکاروں اور تنصیبات کے خلاف حملوں کے بعد کیے گئے جن سے مبینہ طور پر امریکی اہلکاروں اور امریکی زیر قیادت اتحادی افواج کی زندگیوں کو خطرہ لاحق تھا۔ادھرترکیہ کے وزیر خارجہ حاقان فیدان نے متحدہ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔وزارت خارجہ کے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اس دوران شام کی تازہ ترین پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔وزیر فیدان نے سابقہ غلطیوں کو نہ دہرانے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس موقع پر حکومت کو حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے ، اپوزیشن کے ساتھ بات چیت اور سیاسی عمل کا آغاز کرنا چاہیے اور خطے کے تمام اداکاروں کو اس سلسلے میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے ۔