Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

رسالہ ’’اقبالیات‘‘ ایک جائزہ میری بات

Towseef
Last updated: December 6, 2024 10:45 pm
Towseef
Share
16 Min Read
SHARE

عمران بن رشید

رسالہ ’’اقبالیات‘‘کا تازہ شمارہ ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی صاحب نے عنایت فرمایا۔حسبِ معمول اپنے پسندیدہ شاعرسے متعلق پڑھنے کے لئے بے تاب اور بے قرار تھا ۔ لہذا رسالہ مذکورہ ہاتھ میں لئے گھر کی طرف رواں دواں تھا‘راستے میں کئی بارمذکورہ رسالہ کے سرِ ورق پر غور کیا ‘سابقہ شماروں کے برعکس اس شمارے کے نئے نقشہ و نگار (Design) اور نئی جسامت (Size)نے من بھا لیا۔لہٰذا اشتیاقِ مطالعہ دل میں جوش مارنے لگا۔جلد از جلد گھر پہنچنے کی فکر لاحق تھی تاکہ اطمینان سے بیٹھ کر رسالہ کا بساط بھر مطالعہ کرسکوں۔

علامہ اقبال چونکہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جن کی زندگی اورکلام کے صدہا پہلو ہیں۔تاریخِ انسانی میں اُن جیسے مفکرین کم ہی اُٹھے ہیں ‘وہ فکر کے پختہ تو تھے ہی لیکن عزم وارادہ کے بھی پکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر قومی شعور بیدار کرنے اور اسے ایک سمت دینے میں کسی قدر کامیاب ہوگئے ۔اور وہ بھی ایسے پُر فتن اور پُر آشوب دور میں کہ جب امتِ مسلمہ کا ستارئہ تقدیر اندھیروں میں گُم ہوچکا تھابالخصوص برِصغیر کے مسلمان تو ایک طرف انگریزوں کی مکارانہ سیاست کی نذر ہوگئے تھے اور دوسری جانب مستشرقین (Orientalists)کی جانب سے دینی فکر کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔1883ء میں جب غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو یہ بھی دراصل انگریزی سیاست کا پھینکا ہوا ایک تیر تھا جس کو چلاکر مسلمانوں کے سینوں کو چھلنی کردیا گیا ۔ایسے میں اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ پنجاب سے اقبال کو اٹھایا جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے مجروح قلوب کو راحت کا سامان بہم پہنچایا۔جس کے بعد پوری دنیا اقبال کی طرف متوجہ ہوئی اور ہر زمین و زمن میں ان کے ترانے اور اشعار پڑھے جانے لگے۔1938ء علامہ کے انتقال کے سال سے تاایں دم قریب قریب چھ ہزار کتابیں لکھیں گیئں ہیں جن میں علامہ اقبال کی فکر کے صدہا پہلوئوں اور اُن کی شخصیت کے انگنت گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اور فی الوقت دنیا بھر میں بے شماررسالے اور جریدے شائع ہوتے ہیں جن میں یکے بعد دیگرے فکرِ اقبال کی گرہیں کھولی جاتی ہیں ۔رسالہ ’’اقبالیات ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘جو فی الوقت ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی کی ادارت میں نکلتا ہے۔

زیرِ تبصرہ شمارہ حسبِ معمول پُر مغز اور معلومات سے بھرا ہے۔محبانِ اقبال کے لئے یقینا ایسے جریدے باعثِ کشش ہوتے ہیں اور جتنے چراغ اتنی روشنی کے مصداق اس رسالے کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے ۔کشمیر جو اقبال کا مادرِوطن ہے‘یہاں اقبال کو چاہنے والے بھی موجود ہیں اوراقبال کو پڑھنے والے بھی موجود ہیںاور یہاں فکرِ اقبال پر تسلی بخش کا م ہو اہے اور ہورہا ہےاور رسالہ اقبالیات اس حوالہ سے سرِ فہرست ہے جس میں شائع شدہ تحقیقی مقالات قابلِ دید ہوتے ہیں اور کشمیر کے محققین کے لئے یہ رسالہ ایک پلیٹ فام (Platform)فراہم کرتا ہے ۔رسالے کا تازہ شمارہ پڑھ رہا تھا بے حد دلچسپ ،پُر مغز،شاندار ڈیزائن اور علمی مقالات پر مبنی ۔البتہ دو چیزیں ہیںجن کے ساتھ کچھ بے اعتنائی سی برتی گئی ہے جو میری طرح ہر سنجیدہ قاری کے لئے روحانی اذیت کا باعث بنتی ہیں۔ایک یہ کہ مذکورہ شمارہ پر نظرِ ثانی (Editing)میں بخل سے کام لیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کمپوزنگ کے دوران بے شمار املاء کی غلطیاں رہی ہیںجس سے مضامین کا معیار اور ادبی چاشنی کچھ حدتک متاثر ہوئی ہے۔امید ہے کہ ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی صاحب ‘جو ایک مستند محقق‘قلمکار‘دانشور اور ادیب ہیں اس چیز کی طرف دھیان دینگے کیوں کہ رسالہ ہو یااخبار یہ اپنے ادارے کے ترجمان اور پہچان ہوتے ہیں، ان میں سرزد ہوئی غلطی بعض دفعہ ادارے کی مقبولیت کو مشکوک بناتی ہے۔

دوم یہ کہ رسالہ مذکورہ میں شامل ایک مضمون بعنوان ’’علامہ اقبال ‘اتحادِ ملت اور معاصر عرب‘‘ کئی اعتبارات سے مَحَلِّ نظر ہے۔ مضمون اگر چہ ادبی چاشنی سے سرشار ہے‘ادبی تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے لیکن اس میں کچھ مقامات پر ایک طفلانہ پن ہے جو مضمون نگار کی ادبی اور علمی شناخت کو مجروح کرتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’ علامہ کے نزدیک کلمۂ توحید ہی وہ قدرِ مشترک ہے جو جملہ اسلامیان عالم کو ایک دھاگے میں پروتی ہے۔اگر اسے ہٹادیا جائے یا اسے کمزور کردیا جائے تو ملت کا شیرازہ تتربتر ہوجائے گا اور پھر ہر خطے اور ہر نسل کا مسلمان ڈیڑھ اینٹ کی اپنی اپنی مسجد بنالے گا جس کا مشاہدہ فی زمانہ ہم سب کررہے ہیں ‘‘(صفحہ نمبر10)۔یہ عبارت کئی طرح سے مَحَلِّ نظر ہے ‘ ایک تو یہ عبارت علامہ اقبال ؒ کے علمی مقام و مرتبہ کو مشکوک بناتی ہے وہ اس طرح کہ علامہ نے جب توحید کا ذکر کیا تو واقعی توحید بیان کی ‘ توحید کو اپنے خیالات کے تابع نہیں رکھا ۔درج بالا عبارت میں مضمون نگار نے توحید کی تعریف کئے بغیر اپنے ذاتی خیالات کو پہلے توحید بتانے کی کوشش کی ہے اور پھر اس خیال کو علامہ مرحوم کی طرف منسوب کیا ہے جو ایک طفلانہ حرکت ہے۔مضمون نگار کو چاہئے تھا کہ توحید کی کمہ حقہ تعریف کرتے پھر علامہ کے چند ایک اشعار رقم کرتے جن میں توحید کے مختلف پہلو اجاگر کئے گئے ہوں۔یقیناً موصوف نے چند اشعار عبارت کے نیچے رقم کئے ہیں لیکن ان اشعار میں توحیدکامحض ایک پہلو اجاگرہواہے ۔جو یوں ہیں؎

یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے غارت گرکاشانہ دینِ نبویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترادیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھادے اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

یہ اشعا ر بانگِ درا کے تیسرے حصے میں ’’وطنیت‘‘کے زیرِ عنوان نظم سے ہیں۔نظم کے عنوان سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ علامہ نے وطنیت کو بت اور توحید کے منافی یعنی شرک قرار دیا ہے اور ایسی وطنیت جس میں وطن کو رب کا درجہ دیا جائے بلا ریب شرک ہے ۔مگر کیا محض یہی ایک چیز شرک ہے ‘بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وطنیت کا بُت تو اب قریب قریب نیست و نابود ہوچکا ہے لیکن جو دوسرے بُت مسلمانوں نے بنارکھے ہیں لازم تھا کہ اُن کی طرف اشارہ کیا جاتا ۔جیسے علامہ نے فرمایا ہے ؎
سطوَتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں
(نظم ’شمع اور شاعر)

اگر مضمون نگار نے جان بوجھ کرصرف مسلمانوں کی اُس گمراہی کاذکر کیا ہے جو قریب قریب اب ختم ہوچکی ہے اور مسلمانوں کی اُن اعتقادی گمراہیوں کو نظر انداز کیا ہے جو فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت میں پیوستہ ہوچکی ہیں جن کی طرف علامہ نے بھی درج بالا شعر میں اشارہ کیا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ ایک علمی خیانت اور اقبال مرحوم کے ساتھ ناانصافی ہے۔اور اگر مضمون نگارکو صرف وطن پرستی ہی شرک اور توحید کے منافی لگتی ہے تو میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ موصوف توحید کے مفہوم سے آگاہ ہیں اور نہ علامہ کے تصورِ توحید سے‘جو شعر اوپر رقم کیا گیا ہے اس کی شرح میں یوسف سلیم چستی لکھتے ہیں ’’جن مسلمانوں کے دم سے ہندوستان میں توحید کی سطوت (عظمت اور شوکت‘ رعب اور دبدبہ )قائم ہوئی تھی افسوس ہے ان مسلمانوں کے نام لیوائوں نے مشرکانہ عقائد اختیار کر لئے ،ظاہر ہے اگر مسلمان خود ہی قبرپرستی و بت پرستی کرنے لگے خود ہی برہمن کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے اور خطبئہ صدارت میں مسلمانوں کو اس کی رہنمائی پر اعتمادکرنے کی تلقین کرے تو پھر وہ مسلمان کسی برہمن کو اسلام کی تبلیغ کیسے کرسکتا ہے؟‘‘[شرح بانگِ درا]۔جب کوئی مسلمانوں میں توحید کی بنیاد پر اتحاد کا قائل ہو تو اُسے چاہئے کہ توحید ربوبیت کے ساتھ ساتھ توحیدِ الوہیت کو بھی بیان کرے ‘محض توحید کالفظ زبان سے ادا کرکے مسلمانوں کو اتحاد کی تعلیم دینا سیاست ہے اسلام ہرگز نہیں ہے۔

مضمون نگار نے مزید لکھا کہ ’’ ہر خطے اور ہر نسل کا مسلمان ڈیڑھ اینٹ کی اپنی اپنی مسجد بنالے گا جس کا مشاہدہ فی زمانہ ہم سب کررہے ہیں‘‘۔ میں کہتا ہوں کہ مضمون نگار نے اپنے محقق ہونے کا حق ہرگز ادانہیں کیا ہے ‘ایک تو ہرادب تخلیق کرنے والامعتدل ہونا چاہیے کیوں کہ ادب سماج کے ہر طبقے اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے یا یوں سمجھئے کہ ادب عام رجحان (Main stream)کے لئے لکھا جاتا ہے اگر آپ نے کسی مخصوص طبقے کے مذہبی رجحان کو زد میں لایا تو گویا آپ ادب میں دھڑابندی کا راستہ اختیار کررہے ہیں جس نے بقول عبدالرحمان مخلص مرحوم ادب کو بھی ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے اور مذہب کو بھی۔رہا سوال اُس مسلمان طبقے کا جس نے مسجدیں الگ تعمیر کیں تو عرض ہے کہ اگر مذہبی مسائل کو ادب میں زیرِ بحث لایا جائے گا تو یاد رکھیئے کہ یہ ادب کے حق میں بہتر ہے اور نہ مذہب کے حق میں۔کاش مضمون نگار نے عوامی چہ می گوئیوں کے بجائے حقیقتِ حال کا صدقِ دل سے جائزہ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ ایسی نوبت آئی ہی کیوں ؟بہرحال آگے ایک جگہ پر مضمون نگار نے لکھاہے’’ہمیں اپنے جملہ معاملات و مسائل میں خیشیتِ الٰہی کو مقدم رکھنا چاہیے اور ہر طرح کے نسلی ‘قبائلی ‘لسانی اور اقلیمی تعصبات و علائق سے بلند ہوکر اپنے ایمان و اعتقاد کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے‘‘[صفحہ؍15]۔واقعی یہ کلمات قابلِ تعریف ہیں اور اسی چیز کی ضرورت فی الوقت مسلمانانِ عالم کو ہے ۔لیکن میرا ایک سوال ہے مضمون نگار سے بالخصوص اور دیگر ادباء وشعراء سے بالعموم ‘وہ یہ کہ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی ادیب یا شاعر مسلمانوں میں اتحاد کی بات چھیڑتا ہے تو خود ہی تذبذب کا شکار نظر کیوں آتاہے؟میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ ادب میں مذہبی مسائل نہ چھیڑے جائیں ‘ یاد رکھنا چاہئے کہ ادب اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود بہرحال ایک ذہنی اختراع ہے جبکہ مذہب بالخصوص اسلام اللہ کا نازل کردہ ہے ۔دونوں کے اپنے الگ الگ اصول و ضوابط ہیں ۔اسلام کو ادب کے اصولوں پر قطعاً نہیں سمجھا جاسکتا‘ادب جیسا میں قبل اذیں بتاچکا ہوں سماج کے ہر طبقے اور ہر مذہب کے ماننے والے کے لئے لکھاجاتا ہے یہاں کسی قسم کی تفریق نہیں جبکہ اسلام جہاں مومنین کی تعریف کرتا ہے وہاں منافقین اور مشرکین کی مذمت بھی کرتا ہے۔ادب میں آپ کالی داسؔ کی زمین میں شعر کہہ سکتے ہیں لیکن اسلام میںآپ کسی غیر مسلم کے عقائد اپنا سکتے ہیں اور نہ اُن کا طرز عمل اختیار کرسکتے ہیں‘ادب میں افسانہ گھڑا جا سکتا ہے لیکن اسلام میں وضع کردہ چیزوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔میں ذاتی طور پر اس چیز کا قائل ہوں کہ یقیناً ادب میں اتنی وسعت ہے کہ اس میں مذہب کو زیرِبحث لایا جاسکتا ہے لیکن اس طرح نہیں کہ آپ مذہب کو ادب کی نذر کر ڈالیں۔جب آپ مسلمانوں میں اتحاد کو زیرِ بحث لاتے ہیں تو اتحاد اسی چیز کو کہیے جسے اسلام اتحاد کہتا ہے یعنی خالص عقائد و اعمال پر مبنی اسلام بالکل دورِ صحابہ ؓ والا اسلام‘ایسا نہ ہو کہ آپ مشرکانہ عقائد اور بدعات میں شرابور نام نہاد مسلمانوں کو بھی جوں کا توں اپنا ہم نوا بنالواور اسے اتحاد کا نام دو۔اقبال نے جہاں مسلمانوں میں فرقہ بندی پر واولہ کیا ہے وہیں انہوں نے اُن مسلمانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جنہوں نے اسلام کو اپنے ذاتی مفاد اور دنیاوی لذت کے حصول کے لئے استعمال کیایا جنہوں نےصحابہ ؓ کا منہج ترک کرکے صوفیاء اور فلاسفاء کے منہج پر اسلام کو سمجھا اور سمجھایااور یوں اسلام میں باطل عائد و اعمال کو پناہ دی ۔

اگر واقعی ہم فکرِ اقبال کے ترجمان ہیں تو عوام کو خوش اور مائل کرنے کی بجائے ہم فکرِ اقبال کا ہر پہلو یہ سمجھ کر عوام کے سامنے رکھیں گے کہ یہ حق ہے ۔مضمون نگار نے جہاں مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقے کو طنز کا نشانہ بنایا ہے وہاں انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ علامہ نے جب مندر جہ ذیل شعر کہا تو وہاں مسلمانوں کا کون سا طبقہ علامہ کے پیشِ نظر تھا؎
فتوٰی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کار گر
حق گوئی اور بے باکی اسی کا نام ہے اور فکرِ اقبال کی درست ترجمانی یہی ہے۔
[email protected]
����������������������

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
کولگام میں آدھی رات کو بھیڑ بکریوں کی بڑی چوری، 136 بھیڑیں غائب
تازہ ترین
اردو کسی مذہب کی علامت نہیں بلکہ جموں و کشمیر کے تشخص کی دھڑکتی نبض ہے: وحید پرہ
تازہ ترین
سرینگرمیں متحدہ مجلس علماء کا اہم اجلاس منعقد، فرقہ وارانہ اشتعال انگیزیوں کے تدارک کے لیے پینل قائم
تازہ ترین
وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کا ڈوڈہ سڑک حادثے پر اظہارِرنج
تازہ ترین

Related

کالممضامین

’’چاول کی آخری وصیت‘‘ جرسِ ہمالہ

July 14, 2025
کالممضامین

! اسرائیلی مظالم کے خلاف بڑھتا ہوا عالمی دباؤ | غذائی تقسیم کے مراکز پر بھی بھوکے فلسطینیوں کو قتل کیا جارہاہے

July 14, 2025
کالممضامین

چین ،پاکستان سارک کا متبادل پیش کرنے کے خواہاں ندائے حق

July 13, 2025
کالممضامین

معاشرے کی بے حسی اور منشیات کا پھیلاؤ! خودغرضی اور مسلسل خاموشی ہمارے مستقبل کے لئے تباہ کُن

July 13, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?