فکر ِ صحت
لیاقت علی جتوئی
آنکھوں کی بینائی عمر بڑھنے کے ساتھ کمزور ہونے لگتی ہے اور عینک لگ جاتی ہے۔ دوسری جانب مختلف وجوہات کی بنا پر بچوں کی بھی بینائی کمزور ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے انھیں بھی عینک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ صحت مند زندگی کیلئے اپنی نظر کواچھا رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایسا کرنا قدرے مشکل ضرور ہے لیکن چند عام نکات کو اپنا کر بینائی کو بہتر رکھا جاسکتا ہے۔ بالخصوص جب آپ اپنے اندر درج ذیل علامات پائیں تو فوری طور پر معالج سے رجوع کریں۔
آنکھوں میں درد :ہماری آنکھیں ایک لینس کے طور پر کام کرتی ہیں، جو مختلف فاصلوں پر موجود اشیا کو دیکھنے کے لیے خود کو ایڈجسٹ کرتی ہیں۔ لیکن جب آپ کو کچھ دور موجود چیزوں کو دیکھنے میں مشکل پیش آئے تو آنکھوں کو کچھ زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے، جس کے نتیجے میں ان میں درد، تھکاوٹ، پانی بھر آنا یا خشک ہونے جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔
سر درد رہنا:آنکھوں میں دباؤ یا تناؤ سردرد کا باعث بن جاتا ہے، کیونکہ آنکھوں کو اپنا کام کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے، جس کے نتیجے میں آنکھوں کے آس پاس درد رہنے لگتا ہے، خاص طور پر کوئی کتاب پڑھنے، کمپیوٹر پر کام کرنے یا کسی بورڈ کو دیکھتے وقت۔ آنکھوں کو جب چیزوں کو دیکھنے کے لیے توجہ مرکوز کرنا پڑتی ہے تو مسلز زیادہ سخت کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جس سے سر میں درد رہنے لگتا ہے۔ اگر آپ توجہ دے کر کوئی کام کررہے ہیں تو اس کے دوران پندرہ سے تیس سیکنڈ کا وقفہ ضرور لیں۔
آنکھیں سکیڑنا :اپنی پلکوں کو تھوڑا سا بند کرنے سے اگر آپ کو صاف نظر آنے لگتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی بینائی خراب ہورہی ہے۔ آنکھوں کو سکیڑنا ٹھیک دیکھنے میں مدد تو دیتا ہے مگر کافی دیر تک ایسا کرنے سے بینائی زیادہ خراب ہوسکتی ہے، جبکہ سردرد بھی ہونے لگتا ہے۔
تیز روشنی میں دیکھنا مشکل :تیز روشنی میں گھومتے ہوئے اگر آنکھوں میں چبھن ہونے لگے تو اس کا مطلب ہے کہ بینائی میں خرابی ہورہی ہے، کیونکہ یہ تیز روشنی آنکھوں کو سکڑنے پر مجبور کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں انہیں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
اسکرین کا استعمال :فون یاکمپیوٹر کی اسکرین کے استعمال کا دورانیہ بھی بینائی پر اثرانداز ہوسکتا ہے، ایک دن میں مسلسل دو گھنٹے یا اس سے زائد وقت ڈیجیٹل اسکرین کو دیکھتے ہوئے گزارنا ڈیجیٹل آئی اسٹرین کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آنکھوں میں سرخی، خارش، خشک ہوجانا، دھندلانا،تھکاوٹ اور سردرد وغیرہ کی شکایات ہوسکتی ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اسکرین کے استعمال میں وقفہ دیں۔
طبیعت بگڑنا :آپ کی دونوں آنکھیں دو تصاویر بناتی ہیں، جنھیں دماغ جوڑ کر ایک کردیتا ہے، مگر جب ایک آنکھ کی نظر خراب ہورہی ہو تو دماغ میں بننے والی تصویر بھی ٹھیک نہیں ہوتی جو کہ بیمار ہونے کا احساس پیدا کرسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے حالات میں دماغ دو الگ الگ تصاویر دیکھتا ہے اور اس کے لیے انہیں اکٹھا کرنا مشکل ہوتا ہے، ایسا ہونے پر آپ کو قے، ایک چیز دو نظر آنا یا سر چکرانے کی شکایات ہوسکتی ہیں۔
آنکھوں کا چیک اَپ :آنکھوں کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ان کا چیک اَپ کرانا معمول بنالیں، اس عادت سے بینائی میں کسی بھی قسم کے مسئلے کو ابتدا میں ہی پکڑ کر اس پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر اکثر سردرد ہو، کچھ پڑھنے کے بعد آنکھوں کو تھکاوٹ ہو، کچھ دیکھنے کے لیے اسےسکیڑنا پڑے یا کتاب کو قریب لاکر پڑھنا پڑے یہ سب بینائی میں کمزوری کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
بینائی قدرت کی انمول نعمت ہے،جس کی حفاظت ہم درج ذیل غذاؤں کے استعمال سے کرسکتے ہیں۔
گاجر:گاجر میں وٹامن اے موجود ہوتا ہے جو آنکھوں کی جھلی اور دیگر حصوں کو بہتر کام کرنے میں مدد دیتا ہے، گاجر کا روزانہ استعمال بینائی کو بھی بہتر بناتا ہے۔
بھنڈی:بھنڈی میں زیکسن اور لوٹین جیسے مرکبات موجود ہوتے ہیں، جو بینائی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھنڈی میں وٹامن سی کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، جو آنکھوں کی صحت کے لیے مؤثر ہے۔
گوبھی:لوٹین ایک ایسا اینٹی آکسیڈنٹ ہے، جو بینائی کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ گوبھی میں بھی اس کی مقدار کافی زیادہ پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ گوبھی میں موجود وٹامن سی اور بیٹا کیروٹین بھی نہایت فائدہ مند ہوتے ہیں۔
خوبانی:بڑھتی عمر میں بینائی کمزور ہوجاتی ہے، لیکن ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ بیٹا کیروٹین بینائی کو بہتر رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ روزانہ وٹامن سی، وٹامن ای، زنک اور کاپر سے بھرپور غذائیں کھانے سے بینائی بہتر ہوتی ہے۔ جیسے جیسے سردیاں قریب آتی ہیں، میوے کھانے کا شوق بھی بڑھتا جاتا ہے۔ بادام، اخروٹ اور کاجو جیسے میوہ جات میں اومیگا3کی مقدار کافی زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ آنکھوں کی جھلی کو تیز روشنی سے لڑنے کی طاقت دیتا ہے اور بڑھتی عمر میں پیش آنے والے آنکھوں کے مسائل کی بھی روک تھام میں مدد کرتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ روزانہ30منٹ کی جسمانی ورزش آپ کو صحت مند طرزِ زندگی کی جانب گامزن کرسکتی ہے۔ یہ ورزش چہل قدمی، جاگنگ، سائیکلنگ اور گارڈننگ سے لے کر کچھ حد تک مشکل کاموں جیسے رننگ، پش اَپس یا ویٹ لفٹنگ پر مشتمل ہوتی ہے۔
اگر آپ اپنی سہولت اور سکت کے مطابق کسی بھی ایک یا ایک سے زائد ورزش کو مستقل بنیادوں پر کرتی رہیں گی تو آپ اپنے اندر ایک نئی توانائی اورتازگی پائیں گی۔ ویسے بھی ایک صحت مند زندگی محض خواب دیکھنے سے نہیں ملتی بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات بھی کرنے پڑتےہیں۔ بیٹھے بیٹھے کام کرتے رہنا، افراتفری میں پیٹ بھرنا یعنی لگا بندھا لائف اسٹائل آپ کو موٹاپے کی طرف مائل کرتا ہے یا وزن میں زیادتی کا باعث بنتاہے۔ جسم میں چربی نہ بڑھنے دینے یا ایک صحت مند وزن اپنائے رکھنے کیلئے آپ کو کچھ سرگرمیاں روزانہ کی بنیادوں پر اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کرنے اور نہ کرنے کے کاموں کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے آپ اپنے دماغ پر کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈال دیتی ہیں، جس کی وجہ سے آپ کو ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ہمارا جسم ایک مشین کی طرح ہے ، جیسے مشین کچھ عرصے استعمال نہ ہو تواس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، اسی طرح اگر ہمارا جسم بھی حرکت میں نہیں رہے گاتو پھر کہیں کا نہیں رہے گا۔روزانہ کی باقاعدہ ایکسرسائز آپ کے جسم میں موجود ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں کو تقویت فراہم کرتی ہے اور آپ کسی بھی کام کو مستعدی سے انجام دینے کے قابل ہوجاتی ہیں۔کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی آ پ کی توانائی کو بڑھانے کا باعث ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی آ پ کو تھکن بھی ہوجاتی ہےاور جب جسم ریلیکس کرتا ہے تو آپ کو اچھی نیند آتی ہے۔ ورزش کے دوران خوشی کے ہارمونز ’اینڈورفنز‘ آپ کو ذہنی طور پر آرام کرنے میں مدد دیتے ہیں اور آپ سکون بھری نیند لیتی ہیں۔موسم خواہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو اورآپ کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہوں، مگر پھر بھی ہلکی پھلکی اسٹریچنگ ایکسرسائز کے لئے وقت نکالیں۔ سیڑھیاں چڑھنا، اترنا، آفس میں کام کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کھڑے ہوجانا اور کمرے یا کوریڈور میں تھوڑی بہت چہل قدمی کرنا، یہ ایسے طریقے ہیں کہ جن پر عمل کر کے آپ اپنے مسلز اور جوڑوں کو آرام پہنچا سکتی ہیں۔