مختار احمد قریشی
والدین کے بے جا لاڈ پیار اور بچوں کی غیر ضروری خواہشات پوری کرنے کا رجحان معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔ آج کے دور میں بچے چھوٹی عمر میں وہ تمام آسائشیں اور سہولتیں حاصل کر لیتے ہیں جو ماضی میں انسان کو محنت، صبر اور عمر کے تجربے کے بعد حاصل ہوتی تھیں۔ موبائل فونز، مہنگی گاڑیاں اور آزادانہ زندگی کی سہولتیں بچوں کو آسانی سے فراہم کی جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ زندگی کے اہم اصولوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
بے جا لاڈ پیاراور نقصان دہ رجحان :
والدین کی محبت اور توجہ ایک بچے کی ذہنی، جسمانی اور روحانی نشوونما کے لیے بے حد ضروری ہے، لیکن جب یہ محبت حد سے بڑھ جائے اور لاڈ پیار میں تبدیل ہو جائے، تو یہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو نہ صرف غیر ضروری آسائشیں فراہم کر رہے ہیں بلکہ انہیں زندگی کے اہم اصول سکھانے میں بھی ناکام ہو رہے ہیں۔
ہر خواہش کی تکمیل : بچوں کی خواہشات پوری کرنے کی حد والدین کو اس نہج پر لے آتی ہے جہاں وہ یہ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں کہ ان چیزوں کی ضرورت واقعی ہے یا نہیں۔ بچے چھوٹی عمر میں ہی آئی فون، برانڈڈ کپڑے اور ایسی گاڑیاں حاصل کر لیتے ہیں جو ان کی عمر اور ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں۔
ذمہ داری کا فقدان : بچوں کو آسانی سے ہر چیز مہیا کرنے سے ان میں محنت اور جدوجہد کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ جب وہ بغیر کسی کوشش کے سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں، تو انہیں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔
قابو پانے میں ناکامی :بچوں پر قابو پانے اور ان کے رویے کو درست سمت میں لے جانے میں والدین کی ناکامی ایک بڑی وجہ ہے۔ جب بچے غلط رویہ اختیار کرتے ہیں تو والدین کی جانب سے ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی، جس کی وجہ سے ان کا رویہ مزید خراب ہو جاتا ہے۔
نئی نسل کی زندگی کا بدلتا ہوا رویہ : آج کے بچے چھوٹی عمر میں وہ سب کچھ حاصل کر رہے ہیں جو ماضی میں صرف عمر اور تجربے کے ساتھ ممکن تھا۔ یہ رویہ ان کی زندگی کو منفی سمت میں لے جا رہا ہے۔
گاڑیوں کی آزادی اور رفتار کی لت : بچوں کو کم عمری میں گاڑیاں چلانے کی اجازت دینا نہ صرف ان کی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
بچے سمجھتے ہیں کہ اگر وہ گاڑیاں آہستہ چلائیں گے، تو انہیں کمزور یا غیر اہم سمجھا جائے گا۔ یہ تصور ان میں تیز رفتاری کی عادت پیدا کرتا ہے، جو حادثات کا سبب بنتی ہے۔
والدین کی طرف سے کم عمری میں گاڑی چلانے کی آزادی ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے، جو بچوں کو قانون اور اصولوں کی پروا نہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
غیر ضروری جلد بازی : آج کے بچے ہر چیز میں جلد بازی دکھاتے ہیں، چاہے کوئی کام ہو یا نہ ہو۔ انہیں صبر اور تحمل کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
محنت اور جدوجہد کی اہمیت کا فقدان: بچوں کو چھوٹی عمر میں وہ سب کچھ دے دیا جاتا ہے جو انہیں بڑی عمر میں محنت کے بعد ملنا چاہیے تھا۔ اس رویے سے ان میں صبر، جدوجہد، اور محنت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً، وہ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
والدین کے لیے گزارشات: والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بے جا لاڈ پیار ان کے بچوں کی زندگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
اصولوں کی پابندی سکھائیں: والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اصولوں کی اہمیت اور ان کی پابندی کا درس دیں۔ انہیں قانون، اخلاقیات، اور سماجی ذمہ داریوں کا شعور دیں۔
صبر اور محنت کا درس : بچوں کو سکھائیں کہ زندگی میں ہر چیز وقت اور محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ انہیں کم عمری میں ہر سہولت مہیا کرنے کے بجائے، انہیں محنت کا موقع دیں۔
محدود سہولیات فراہم کریں: بچوں کو مہنگے موبائل فونز یا گاڑیاں دینے کے بجائے، ان کی ضروریات کو محدود کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ ان چیزوں کی ضرورت کب اور کیوں ہوتی ہے۔
کم عمری میں گاڑیاں چلانے کی اجازت نہ دیں : والدین کو سختی سے یہ اصول اپنانا چاہیے کہ بچے کم عمری میں گاڑیاں نہ چلائیں۔ انہیں یہ شعور دینا ضروری ہے کہ قانون کی پابندی سب پر لازم ہے۔
حکومت کے اقدامات : خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے کم عمر ڈرائیورز کے خلاف سخت اقدامات اٹھاتی ہے۔ ٹریفک قوانین کو بہتر بنانے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے مختلف مہمات شروع کی گئی ہیں۔
والدین اور معاشرتی کردار: بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں والدین کے ساتھ معاشرتی ماحول کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے۔ آج کے والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے بچے معاشرے کے ایک اہم حصے ہیں، اور ان کی تربیت صرف انفرادی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی بہتری کے لیے بھی ضروری ہے۔
معاشرتی شعور کی تربیت: والدین کو چاہیے کہ بچوں کو معاشرتی شعور دیں، ان میں دوسروں کی مدد، تعاون، اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کریں۔ بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ معاشرہ ایک نظام کے تحت چلتا ہے، اور ہر فرد کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
تعلیمی اداروں کا کردار: اس مسئلے کو حل کرنے میں تعلیمی ادارے بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں کو والدین کے ساتھ مل کر ایسے پروگرامز ترتیب دینے چاہئیں جو بچوں کی اخلاقی، سماجی، اور ذہنی تربیت پر توجہ دیں۔
بچوں میں مثبت عادات کا فروغ: بچوں کی شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے ان میں مثبت عادات پیدا کرنا بے حد ضروری ہے۔ والدین اور اساتذہ کو مل کر اس سمت میں کام کرنا چاہیے۔
وقت کی قدر سکھانا: بچوں کو سکھائیں کہ وقت ایک قیمتی اثاثہ ہے، جسے ضائع کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ انہیں اپنے وقت کا صحیح استعمال سکھائیں تاکہ وہ غیر ضروری سرگرمیوں میں مشغول نہ ہوں۔
خود مختاری کا جذبہ پیدا کرنا: بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ انہیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے ہیں اور ان فیصلوں کے نتائج کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ خود مختاری کا جذبہ انہیں مستقبل میں خود کفیل بننے میں مدد دے گا۔
تنقید کو قبول کرنا سکھانا: آج کے بچوں میں تنقید کو برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو تنقید کو مثبت انداز میں قبول کرنے کا درس دیں تاکہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ سکیں۔
حکومت کے مزید اقدامات کی ضرورت: حکومت نے ٹریفک قوانین اور آگاہی مہمات کے حوالے سے کئی اچھے اقدامات کیے ہیں، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال: ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے، اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ کم عمر ڈرائیورز کو پکڑنے میں آسانی ہو۔
قانونی سزائیں: ایسے والدین پر سخت قانونی کارروائی کی جائے جو کم عمر بچوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دیتے ہیں یا ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔
تعلیمی نصاب میں شمولیت: اس مسئلے کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ بچے چھوٹی عمر سے ہی قوانین اور اصولوں کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔
ایک روشن مستقبل کی امید: اگر والدین، تعلیمی ادارے، اور حکومت مل کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو بچوں کی تربیت میں بہتری آ سکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی زندگی میں توازن پیدا کریں، محبت اور سختی کے درمیان ایک اعتدال رکھیں، اور بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھائیں۔
معاشرتی اداروں اور حکومت کو چاہیے کہ والدین کی رہنمائی کریں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو بچوں کی بہتر تربیت میں مددگار ثابت ہوں۔ بچوں کو محض آسائشوں کا عادی بنانے کے بجائے، انہیں ایک مضبوط، خود مختار، اور ذمہ دار شہری بننے کا موقع دیں۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نئی نسل کی اصلاح صرف حکومت یا تعلیمی اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ والدین اور معاشرے کا بھی اس میں برابر کا حصہ ہے۔ ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسل کو ایک بہتر، محفوظ، اور خوشحال مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
آنے والی نسل کی حفاظت ہماری ذمہ داری:
والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے بچوں کی تربیت صرف ان کی خواہشات پوری کرنے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ بچوں کو محنت، صبر، اور قانون کی پابندی سکھانا ضروری ہے تاکہ وہ ایک بہتر اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔یاد رکھیں کہ بے جا لاڈ پیار بچوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ اگر والدین اس رجحان کو ترک نہیں کریں گے، تو آنے والی نسل مزید بگڑ جائے گی۔ حکومت اور معاشرتی اداروں کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن والدین کے رویے میں تبدیلی کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔اس لیے والدین کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بچوں کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کرنے کے لیے اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی تربیت ایک اجتماعی ذمہ داری ہے اور اس میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے۔
(مضمون نگارکا تعلق بونیار بارہمولہ سےہےاور پیشہ ور مدرس ہیں)
رابطہ۔8082403001