رشید پروینؔ سوپور
پچھلے ہی ہفتے مسلم دنیا کا اجتماع ریاض میں منعقد ہوا، جس میں بہت سارے مسلم ممالک کے سر براہاں اور دوسرے کلیدی عہدے داروں نے شرکت کی اور اپنی تقریروں سے اسرائیل پر تمام قسم کے بارود سے بمباری کرکے اس سے نیست و نابود کرنے کا کار خیر بھی انجام دیا ،اس میں ان ممالک نے بھی شرکت کی جو اسرائیل کے ہمدرد بھی ہیں اور جن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم ہیںاور وہ ممالک بھی تھے جو اپنے عوام کو محض اس لئے عبرت کا نشان بنا رہے ہیں کہ کہیں وہ اس ظالم اور دہشت گرد سٹیٹ کے خلاف کوئی احتجاج نہ کر سکیں، کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ شاید اس احتجاج کے نتیجے میں، وہ امریکہ بہادر کے دست شفقت سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس میں سر فہرست مسلم دنیا کا واحد ایٹمی پاورپاکستان بھی ہے اور دوسرے مسلم مما لک بھی ہیں جو اپنی بادشاہت کو بر قرار رکھنے کے لئے امریکی سر پرستی کے محتاج ہیں اور وہ بھی جو تمام قدرتی دولت سے مالا ہونے کے باوجود یاتو بوٹ پالش ہی کرسکتے یا امریکی شہنشاہ کی ناک صاف کرنے کے سوا اور کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پاتے۔ امریکی ڈر اور خوف ان سر براہان کوہر لمحے لرزہ بر اندام رکھتا ہے اور یہ سارے کے سارے ۵۷ ممالک سمجھتے ہیں کہ وہ امریکی آکسیجن پر ہی زندہ ہیں، اس لئے بے شمار مسلم اجلاسوں کی مانند اس اجلاس کا بھی وہی حشر ہوا جو ہونا تھا ۔یعنی نشتند، گفتند و بر خواستنند۔ اور حیران کن عاجزانہ انداز میں کچھ ایسی قرار دادیں بھی اپنے ان ہی آقاؤں کی خدمت میں پیش کیں جو مسلم عوام کا بے دریغ لہو بہارہے ہیں اور سارے مسلم ممالک کی بھاگ ڈور سنبھالے ہوئے ان سب پیران حرم کو اپنے سنگ آستاں پر سجدہ ریز رکھے ہوئےہیں۔ پچھلے ۷۵ سال کے دوران ایسے اجلاسوں کا کوئی شمار نہیں جو اسرائیلی جارحیت اور مظالم کے خلاف یہاں منعقد ہوچکے ہیں، جس طرح یواین او میں امریکی ویٹو کی تعداد بھی اسرائیلی حق میں لاتعداد ہوچکی ہے ۔ آج کی دنیا کو اگر اب بھی یو این او سے کسی انصاف بر مبنی فیصلے کی توقع ہے تو و ہ لوگ احمقوں کی دنیا کے باسی ہی کہلائے جاسکتے ہیں کیونکہ اس کا وجود اور اس کی کیمسٹری ہی یہ تھی کہ امریکی اور مغربی مفادات کو عالمی سطح پر تحفظ حاصل رہے ، اس لئے غزہ اور فلسطینی عوام جو ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ سے اسرائیلی بمباری اور ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ، ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ان میں سے اب تک اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں لوگ ،بچے بوڑھے جوان عورتیں اور شیر خوار، نوزائید بھی اس بمباری کی زد میں آکر بارود میں تحلیل ہوچکے ہیں اور غزہ پٹی میں کوئی بستی نہ سلامت رہی ہے اور نہ کہیں اشیائے خوردنی اور ادویات دستیاب ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح کی بہیمانہ اور وحشیانہ بمباری کبھی اس زمین نے نہیں دیکھی ہے جو کئی ایٹم بموں کے برابر قرار دی جارہی ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ دنیا کے پولیس مین اور انصاف و انسانی حقوق کے علمبردار برطانیہ اور امریکہ کھلے عام اسرائیل کو تمام قسم کے مہلک ہتھیار اور دوسری امداد جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کےاس قتل عام میں شریک ہیں تاکہ ’’گریٹر اسرائیل ‘‘کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے ۔
’’تم میں جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک کام کریں گے ،ان سے اللہ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ ان کو زمین میں حکومت عطا فر مائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی (النور۔ ۵۵) اور اس ایمانی بیانیہ کے ساتھ لازماً یہ شرط بھی عائد ہوجاتی ہے کہ ’’ قسم ہے آپؐکے ربّ کی۔یہ لوگ ایماندار نہیں ہوں گے ۔ جب تک آپسی جھگڑوں میں یہ لوگ آپؐ سے تصفیہ نہ کرادیں ۔ پھر اس پر کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور پورا پورا تسلیم نہ کریں ‘‘(النساء۔ ۶۵) ان دو آیت کریمہ میں مسلم امہ اور مسلم معاشروں کو بنیادی طور پر سمجھایا گیا ہے اور یہ احکامات دئے گئے ہیں کہ زمانے میں امامت کے لئے مختصر طور پر کِن اوصاف کا ہونا لازمی ہے اور ، ہم حال کا جائزہ لیتے ہیں تو مسلم دنیا میں ایک عجیب طرح کی ابتری ، انتشار ، اضطراب ، کمزوری ، ضعیفی اور انحطاط کا عالم پاتے ہیں، جس کی تشریح بھی بعض اوقات ہم صحیح طور پر نہیں کرپا تے اوراس انحطاط کے عوامل پر غور کرنا بھی ہمارے لئے شجر ممنوع ہوچکا ہے۔بے شک ہماری حالت مغرب سے بھی گئی گذری اور بد تر ہے کیونکہ اس دور میں بھی جب مغربی تہذیب اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکی ہے اور عملی طور پر مردو زن اور جنسی رحجانات میں قوم لوط سے بھی آگے بازی لے چکی ہے اور ایک خدا بیزار معاشرے کی تشکیل میں بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن عملی اور زمینی سطح پر یہ لوگ معاشرتی اور انفرادی طور پر ابھی کئی خوبیوں کے حامل ہیں ۔ ابھی تک ان کے حاکم معمولی خطاؤں پر مستفعی ہوجاتے ہیں ، ورک کلچر ان میں موجود ہے ، عدالتیں آزاد ہیں اور مبنی بر انصاف بھی فیصلے ہوتے ہیں اور کسی بھی طرح ابھی تک اپنی حکومتوں کے پیسے چوری چھپے ہڑپ نہیں کرتے ۔ تعلیم کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور نہ عوام کی صحت اور علاج معالجوں میں کسی طرح کا کوئی غیر ذمہ دارانہ ماحول پنپنے دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے طرز معاشروں کے مطابق ابھی تک عدل و انصاف قائم کئے ہوئے ہے اور کوئی بھی انسان قانون اور آئین سے بالا تر نہیں۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ کفر کے معاشرے چل سکتے ہیں ،عدل و انصاف سے عاری معاشرے نہیں چل سکتے یہی وجہ ہے کہ یہ معاشرے ابھی زمین پر اپنی تمام تر خباثتوں اور اللہ سے بغاوتوں کے باوجود زندہ ہیں ، امامت کے درجے پر فائض ہیں اور ابھی آگے بھی مستقبل میں آگے ہی رہیں گی اورہمارے مسلم ممالک کے شہنشاہ آج بھی اربوں اور کھربوں ڈالرز خرچ کرکے دنیا کی بہترین نشاط اور تفریح گاہیں تعمیر کرکے اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے سونے چاندی کے جہاز مہیا تو رکھتے ہیں لیکن امریکی اور مغربی قوتوں کے سنگ آستاں پر سجدہ ریز ہونے کے لئے مجبور ہیں۔مسلم ممالک کی تعداد لگ بھگ ۵۷ ہے جن میں مسلم دنیا کا واحد ایٹمی پاور پاکستان آج کی دنیا کے بہتر اور بدترین دونوںمعاشروں کے لئے بھی نشان ِ عبرت بنا ہوا ہے۔ کیا یہ ایک انہونی نہیں؟ کسی مسلم ملک کا کوئی تابناک مستقبل نظر نہیں آتا اور یہ کہ سب اور ہر طرح کے جائزے بتارہے ہیں کہ مسلم دنیا پر چھائی ہوئی سنگین رات کی سحرکا ابھی گمان بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔مسلم ممالک کی تقدیر بھی دیکھئے کہ کیسے اور کن ہاتھوں سے لکھی جارہی ہے ۔ عراق کی تباہی کیمیکل ویپن کی آڑ میں ہوئی تھی، ایران کو مسلم دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دے کر پابندیوں کا سامنا ہے ۔ مصر اسلامی انقلاب بر پا کرنے اور اخوان المسلمون کو اقتدار میں لانے کی سزا ابھی تک بھگت رہا ہے ۔فلسطین ، چیچنیا، روہنگایائی مسلم ،ماضی قریب میں سلواکیہ، ہرزیگونہ اور اس کے بعد ، لیبیا ، شام ، افغانستان، لگ بھگ ساری مسلم دنیا جس بے دردی سے کچلی جارہی ہے اور جن اندھیروں میں پھینک دی گئی ہے ، ہمیں اس کا یا تو ادراک ہی نہیں یا شتر مرغ کی طرح اپنے پنکھوں میں سر چھپا لیا ہے ۔ اسرائیل ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست جس کا ۱۹۴۸ سے پہلے کوئی وجود ہی نہیں تھا ، اس وقت ۵۷ مسلم ممالک کے سینے پر مونگ دل رہی ہے اور مسلسل گریٹر اسرائیل کو عملی شکل دینے پر تیز رفتاری سے گامزن ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلم ممالک ہم سے کتنا آگے اور سائنسی آسمانوں میں کہاں تک اپنی کمندین ڈال چکے ہیں لیکن مسلم ممالک کا اس ڈرامے کو خاموش تماشیوں کی حیثیت سے دیکھنے کے سوا اور کوئی کردار نہیں ،کیونکہ وہ سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام سے صدیوں پیچھے ہیں ، جب کہ قرآن حکیم نے مسلم کو شروع سے ہی تحقیق اور علم حاصل کرنے کی بار بار تلقین کی تھی ۔ دنیا کی خلافت اور امامت سے مسلم دنیا محروم کیوں ہے ؟ نہ صرف محروم ہے بلکہ اب دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے ۔ یہ وہی مسلم قوم ہے جس نے کبھی زمانے کے رنگ ہی بدل ڈالے ہیںاوریہ شب و روز اس بات کے گواہ ہیں کہ زمانے نے اسلام کے طلوع آفتاب سے اس بات کا پورا مشاہدہ کیاہے کہ دین کی اصل اور اساس ہی انسانیت کی بلندی اور ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل ہے اور یہ معاشرے ہماری تاریخ کے سنہری باب ہیں ۔ کوئی دو رائیں نہیں کہ عرب کے بدؤ، جاہل اور علم سے عاری معاشرے نے جب اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق اپنے آپ اور معاشرے کو ڈھالا تو دنیا کی امامت پر فائض ہوئی ۔ یہی وہ دور تھا جب اسلامی فن، ادب ،رہن سہن ،تہذیب و تمدن اور سائنس و ٹیکنالوجی نے اس سارے زمانے میں ایک انقلاب پیدا کیا اور اس دین اسلام نے وہ اسلامی معا شرے تشکیل دئے ،ایسے حکمراں پیدا کئے اور ایسی شخصیات پیدا کیں کہ ایک معمولی عورت کی فریاد سندھ کے قید خانوں سے یوسف بن حجاج تک پہنچتی ہے اور اس سے احساس دلاتی ہے کہ اس کی قلمرو میں ایک مسلم عورت قید کیسے رہ سکتی ہے؟ اور یہ وجہ بنتی ہے کہ سارا سندھ محمد بن قاسم کے ہاتھوں فتح ہوتا ہے ۔لیکن اب حالات یکسر بر عکس ہیں۔کیا اب بھی ہمیں اس تنزلی کے اسباب پر تفکر نہیں کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں ان عوامل کو کھوجنا نہیں چاہئے؟ مسلم دنیا آسمانوں کی طرف دیکھتی ہے لیکن انہیں جو ہدایات آسمانوں سے آئی تھیں اور آئی ہیں کیا کبھی وہ ان پر تفکر کرتے ہیں؟ ، پھر آپ کی دعاؤں میں کیوں اثر ہو اور کیوں قبول ہوں؟ ’’ہم نے تفکر کا دامن ہی چھوڑاہے ۔ جس کے رد عمل میں ہم سے زمانے کی امامت بھی چھن گئی ، باطل اور الحاد کے مقابلے سے بھی دستبردار ہوئے اور دنیا کی اقوام کے مقابلے میں عزت ، وقاراور احترام سے بھی محروم ہوئے ۔