حسیب اے درابو
نیشنل کانفرنس کو جو بھاری مینڈیٹ ملا ہے، وہ اس قدر کی عکاسی کرتا ہے جو کشمیری اپنی شناخت کو دیتے ہیں۔ کشمیر کی سیاست اس کے تحفظ کے ارد گرد گھومتی رہی ہے اور رہنی بھی چاہئے۔ نیشنل کانفرنس، جس نے تاریخی طور پر کشمیریوں کی شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اوراسے اس انداز میں تشکیل دیا جس سے اس کےسیاسی مقصد میں مدد ملی، اس قسم کی سیاست کرنے کیلئے بہترین پوزیشن میں ہے ،کم از کم ابھی کے لیے۔ وہ ایسا کر پاتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم، تاریخ امید نہیں دیتی۔ لیکن سچ کہا جائے، اس وقت اس سے بہتر آپشنز نہیں ہیں۔
نیشنل کانفرنس کی انتخابی فتح بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے “کشمیر کو تباہ کرنے والے خاندانوں” کے بیانیے کی منہ بولتی تردید ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں عمر عبداللہ کی شکست، جسے اس نے اپنی حکمت عملی کی توثیق کے طور پر دیکھاتھا،دراصل سیاسی شکست سے زیادہ حکمت عملی کا نقصان تھا۔ ان کے لیڈر کی انتخابی شکست نے پارٹی کے حوصلے پست نہیں کئے جس سے نیشنل کانفرنس کی تنظیمی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔
درحقیقت، وجہ کچھ بھی ہو( بی جے پی کے خلاف ووٹ یا ووٹ کی تقسیم )اس کی شاندار انتخابی جیت سے تنظیم کی سیاسی طاقت عیاں راچہ بیاں ہے۔ درحقیقت اس کے اعمال کی مستقل مزاجی، اس کی سیاست میں ہم آہنگی اور اس کے نظریے پر یقین سے زیادہ۔ یہ ایک تنظیم کے طور پر نیشنل کانفرنس کے سر جاتا ہے کہ اس کا کوئی بھی لیڈر یقینی طور پر کوششوںکے باوجود کسی دوسری پارٹی میں نہیں گیا۔ اس طرح کے سیاسی ہنگاموں اور مسلسل حملوں کے دوران پارٹی کو اکٹھے رکھنا قابل ذکر تنظیمی لچک ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ایک یک سنگی وجود ہے جس میں کوئی دراڑ نہیں ہے۔ پارلیمانی انتخابات کےلئے ایک منحرف اور ناراض رہنما کا انتخاب ایک واضح کامیابی تھی۔ نیشنل کانفرنس کے ایک منتخب ممبرپارلیمنٹ نے سوشل میڈیا پر وزیراعلیٰ کے نام ایک خط شائع کیاجوبظاہر خود کو “آپ کی حکومت” سے دور کرنے کےلئے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہانڈی میںابھی اُبال نہ آیا ہو لیکن یہ ٹھنڈے بستے کی نذر بھی نہیں ہوا ہے۔
اب جبکہ نیشنل کانفرنس کی تقدیر 2024میں واضح طور پر بدل گئی، کیا یہ انتخابی بحالی کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ کیا نیشنل کانفرنس اپنے ووٹ شیئر میں کمی کو روکنے میں کامیاب ہو گئی ہےجو گزشتہ تین دہائیوں سے کم ہو رہا ہے؟ حقائق اس کے برعکس بتاتے ہیں۔ 42 سیٹیں جیتنے کے باوجود، 2014کے پچھلے الیکشن سے تقریباً تین گنا زیادہ، نیشنل کانفرنس کے ووٹ شیئرمیں 2014میں 21فیصد سے 2024 میں 23فیصد تک صرف معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 1996میں نیشنل کانفرنس نے 35فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 57اسمبلی سیٹیں حاصل کیں۔2002میں یہ گر کر 28فیصد اور 2008میں مزیدگرکر 23فیصد رہ گیا، نشستوں کی تعدادبھی 57سے گھٹ کر 28رہ گئی۔2014میں اس کا ووٹ حصہ 21فیصد کی اب تک کی کم ترین سطح کو چھو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس کے ووٹوں کا حصہ آدھا رہ گیا ہے جو 1977میں 47فیصد سے زیادہ سے گرکر 2014میں 21فیصد تک آگیا۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میںنیشنل کانفرنس کو 23فیصد ووٹ ملے جو 2014کے 19فیصد سے زیادہ تھے لیکن 1977کے 68فیصد سے بڑے پیمانے پر نیچے آگئے۔
تاہم، اس انتخابی اعدادوشمار کو ایک طرف رکھ کر ایک بڑی سیاسی حقیقت ہے کہ یہ واحد سب سے بڑی جماعت ہے، جس کی اپنی اکثریت ہے۔ اس کی قانون ساز اسمبلی میں زیادہ وسیع البنیاد نمائندگی بھی ہے جو کہ جغرافیائی سرحدوں، برادریوں اور مفادات سے پرےہے۔ اس کی نمائندگی دوسری بڑی پارٹی بی جے پی سے کہیں زیادہ ہے جس کے پاس 29سیٹیں ہیں، جو اتفاق سے سب سے زیادہ ووٹ شیئر رکھتی ہے لیکن یہ ایک کمیونٹی اور جموں کے اڑھائی اضلاع اورانتخابی فوائد کیلئے اپنی پسند کی حد بندی شدہ وادی چناب کے کچھ حلقوں تک محدود ہے۔
موجودہ سیاسی جذبات نے نیشنل کانفرنس کو سیاسی نشاۃ ثانیہ کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اصل میں، یہ اس سے آگے جاتا ہے۔وادی میں مرکزی دھارے کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی مطابقت اور احیاء کا انحصار نیشنل کانفرنس حکومت کی کامیابی پر ہوگا، نہ کہ اس کی ناکامی پر۔ یہ ان کی روشن خیالی میں ہے کہ وہ خود نمائی یا خود ستائش کے جنون میں مبتلا نہ ہوں جیسا کہ وہ اپنی انتخابی شکست کے بعد کرتے رہے ہیں۔
مقبول سیاست کے دوبارہ وجود میں آنے کے تمام اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ہیں، گویا حادثاتی طورہی سہی۔ جن حساسیات کو پامال کیا گیا ہے ان کوکم کرنے کی ضرورت ہے، خواہشات کوزبان دینے کی ضرورت ہے اور لبرل جمہوری سیاست کے نظریہ کو بحال کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک جمع ہونے کی ٹھوس وجہ ہے۔ ایسا کرنے کے لئےمقامی قیادت کو حتمی اہداف کے لئے اگر اتفاق رائے نہیں توکم ازکم وسیع البنیاد سیاسی افہام و تفہیم کو تیار کرنا ہو گا۔ ایسے وقت میں جب ملک امتیازی توازن کی حالت میں ہے، تدبراور تفہیم کی نوعیت کو دور اندیشی پر مبنی ہونا چاہئے۔
کیا ماضی میں واپس جانا کشمیری معاشرے کے لئےمستقبل کا تصور کرنے کا بہترین طریقہ ہے؟ یا ایک نئے مربوط مشغولیت کی شرائط کے امکان کو تلاش کیا جانا چاہئے،جوآج کے کشمیری معاشرہ کیلئے کی ضروریات کیلئے زیادہ معنی خیز اور متعلق ہوں۔ ایک خوشگوار مصروفیت جو کشمیر کو پورے ہندوستان میں اکثریت پسندی کے جوابی بیانیے کی کامیابی کے لیے نتیجہ خیز بنا سکتی ہے۔ ایک بااختیار جموں و کشمیر ریپبلکن جمہوریت میں ممکن ہے، نہ ایک اکثریتی جمہوریت میں ۔ پہلا اقلیتوں کے لئے تحفظات فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرا ان کو ختم کرتا ہے۔
قانون سازی کی طاقت کے علاوہ، جو اس کے پاس اب ہے، نیشنل کانفرنس کو انتظامی ہنر کی ضرورت ہوگی کہ وہ حکمرانی کے اختیارات پر زور دینے کے عمل میں جمود یا جوں کی توں پوزیشن کو نارملائز نہ کرے۔ یقینی طور پر اسے نچلی سطح کے انتظامی ماحولیاتی نظام کی ہمدردی اور حمایت حاصل ہے، چاہے وہ پٹواری ہوں یا پولیس والے۔ اعلیٰ بیوروکریسی کو متنبہ کرنے کے بجائے ان آپریشنل پرتوں کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام کیریئرپسند ہیں جو طاقت کا توازن تبدیل ہوتے ہی رام ہوجائیں گے۔ پہلے کی صورتحال بحال کرنے کے لیے، بہت طویل اور مشکل جدوجہد لڑنی ہے۔
منتخب حکومت کی انتہائی محدود انتظامی رٹ اور مقننہ کے مساوی طور پر کم اختیارات کے پیش نظر، منتخب نمائندے اس وقت سب سے بہتر جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ حکومت کے نہیں بلکہ تکلیف دہ طرز حکمرانی کے ٹچ پوائنٹ کے طور پر کام کریں اورکمیونٹی کنٹرول اور ذاتی امید کے نقصان سے نمٹنے کےلئے حکومتی اختیار کا استعمال کریں۔ اس کے لئےحقیقی سیاسی ذہانت اور مشغولیت کی ضرورت ہے۔
پچھلی دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں، سیاسی محاذ آرائی کی جگہوں کو ذاتی دائروں تک بڑھا دیا گیا ہے جس سے کشمیریوں کے سماجی سرمایہ( اجتماعی اقدار، عقائد کے نظام، رشتوں، رویوں اور طرز عمل) کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان موجودہ شقاق دماغی کا واحد حل کشمیر کے سماجی سرمایہ کی تعمیر نو ہے۔ ایک بااختیار ریاست کا راستہ قراردادوں کو منظور کرنے میں نہیں ہے، جس میں دکھاوا زیادہ اور معنویت کم ہے، بلکہ کشمیر کی عوامی سیاست کو دوبارہ ترتیب دینے اور اس کی نئی تعریف کرنے میں مضمر ہے۔
اختتامیہ
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ نیشنل کانفرنس کے ووٹ شیئر میں کمی 1996کے الیکشن کے بعد شروع ہوتی ہے ،یعنی اپنا سیاسی ہیڈکوارٹر مجاہد منزل سے نوائے صبح منتقل کرنے کے چند سال بعد۔یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ پائین شہر میں واقع مجاہد منزل سات دہائیوں اور اس سے زیادہ عرصے تک کشمیر کی سیاست کامحور رہاجونہ صرف این سی کیڈربلکہ مجموعی طور عوام میں “کشمیری شناخت کے قلعے” کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ وہ ڈھانچہ ہے جس نے کئی دہائیوں سے کشمیریوں کی امنگوں کی علامتی طورترجمانی کی۔ گو کہ نوائے صبح ،جو بالائی شہر کے اندر تاریخ اور ورثے سے محروم ایک صاف ستھرا ڈھانچہ ہے،اب اس کا ہیڈ کوارٹر بنا ہوا ہے تاہم پارٹی کی نجات اس کے دل ودماغ مجاہد منزل کی طرف لوٹنے میں ہے جو ظاہری طور ایک مختصر فاصلے پرہے لیکن ایک طویل نظریاتی راہ گزر پرہے۔
ای میل۔[email protected]