فکرو ادراک
سبزار احمد بٹ
یوں تو تمام تر سرکاری املاک ہمارا اثاثہ ہیں اور املاک کا تحفظ اور ان کی دیکھ ریکھ اور صفائی ستھرائی ہماری ذمہ داری ہے ۔ لیکن جب معاملہ ہسپتالوں کا آتا ہے تو معاملے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ ہسپتالوں کی صفائی ستھرائی اور انتظامیہ کے ساتھ عوامی تعاون سے ہی یہ ہسپتال بہتر طریقے سے کام کر پاتے ہیں اور بیماروں کے لئے راحت اور سہولت کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔ جہاں تک لل دید ہسپتال کی بات ہے یہ ہسپتال وادی کشمیر میں اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد ہسپتال ہے ۔
لل دید ہسپتال جو کہ 650 بستر والا ہسپتال ہے ،جہاں پر زچگی کرائی جاتی ہے ۔ یہ ہسپتال زچہ بچہ کی صحت کے لیے دن رات کام کرتا ہے ۔دریائے جہلم کے کنارے پر وزیر باغ سرینگر میں موجود یہ ہسپتال 65 کنال زمین پر پھیلا ہوا ہے ۔ واضح رہے کہ ہسپتال میں چوبیس گھنٹوں کے دوران اوسطاً ایک سو کے قریب حاملہ خواتین کا معائنہ کیا جاتا ہے اور ہسپتال میں 70 کے قریب جراحیاں انجام دی جاتی ہیں ،اتنا ہی نہیں لل دید ہسپتال میں چوبیس گھنٹوں میں 70 کے قریب نارمل ڈیلوریز بھی انجام پاتی ہیں ۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ ہسپتال کشمیر کی مشہور صوفی شاعرہ لل دید کے نام پر قائم کیا گیا ہے ۔ہسپتال کے آئی پی ڈی بلاک کی بنیاد 5 دسمبر 1980 ءمیں اس وقت کے وزیر اعلی شیخ محمد عبداللہ نے رکھی تھی ۔ دردِ زہ یا لیبر پین میں مبتلا خواتین کے لئے یہ ہسپتال ایک امید کی کرن ہے ۔ ایک عورت اس وقت کس اذیت سے گزر رہی ہوتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس ہسپتال میں داخل ہوتے ہی بیمار کے ساتھ ساتھ تیمارداروں کے جان میں بھی جان آجاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوزائد بچوں کی شرح اموات میں بھی قابل قدر کمی واقع ہو چکی ہے ۔ لل دید ہسپتال میں موجود زیادہ تر ڈاکٹروں کا رویہ دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز اور نرسس کسی لل دید کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ کسی ڈاکٹر یا کسی نرس کے کسی غلط رویے یا غیر ذمہ دارانہ رول کے باعث سبھی لوگ میرے نظریے سے متفق نہ ہوں،لیکن جہاں تک میرا ذاتی تجربہ ہےاور آنکھوں دیکھا حال ہےتو لل دید ہسپتال میں تعینات ڈاکٹرز ،نرسز اور دیگر طبی عملہ بہت ہی شریف، ہمدرد اور انسان دوست ہیں، نو منتخب ڈاکٹروں کے بارے میں یہ بات اور بھی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ بیماروں کے ساتھ بہت ہی محبت اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے عوامی خدمت کا عہد کیا ہے یا یہ قوم کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہو چکے ہیں اور ان کی خدمت دیکھ کر انسان کہہ سکتا ہے کہ ان ڈاکٹر صاحبان نے سائنس کے ساتھ ساتھ انسانیت کا سبق بھی پڑھا ہے ۔ میرے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ باقی ہسپتالوں میں ڈاکٹر صاحبان کم کام کرتے ہیں لیکن جو دباؤ لل ہسپتال اور یہاں کے ڈاکٹر صاحبان پر ہے ،شاید ہی کسی اور ہسپتال پر اس طرح کا دباؤ ہوگا۔ ہسپتال کی صاف صفائی بھی قابل تعریف ہے ۔ صفائی کرمچاری بھی شاباشی کے مستحق ہیں جو کہ بہت ہی محنت اور لگن سے ہسپتال کو صاف رکھنے میں اپنا کردار نبھاتے ہیں جس سے بیماروں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ پولیس کے جو اہلکار ہسپتال میں تعینات ہیں، وہ بھی اپنا کام ایمانداری سے سرانجام دے رہے ہیں۔
ہسپتال انتظامیہ نے صفائی ستھرائی اور ڈاکٹرز کے راونڈ کے لیے کچھ خاص اوقات مقرر کئے ہیں۔ اس دوران بیماروں اور ان کے ساتھ موجود ایک تیماردار کو چھوڑ کر باقی سب لوگوں کو باہر نکالا جاتا ہے تاکہ ہسپتال کی صفائی ٹھیک طرح سے ہو اور ڈاکٹر صاحبان ہر ایک بیمار کو اطمینان سے دیکھ سکیں ۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ لوگ انتظامیہ کا تعاون نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی قوانین کی پاسداری کر رہے ہیں بلکہ وہ ہسپتال کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بھی کوئی مجبوری ہوگی لیکن انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس وقفے کے دوران ان کا باہر رہنا ہی اُن کے بیمار کے لیے بہتر ہے۔ ایک بیمار کو ہم سے زیادہ ڈاکٹر کی اور صفائی کی ضرورت ہے ۔اس لیے تیمار داروں یا عیادت کے لئے آئے ہوئے لوگوں کو اس دوران ہسپتال میں داخل ہونے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔انہیں چاہیے کہ ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ تعاون کریں اور قوانین کی پاسداری کر کے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں ۔ ہسپتال کے بیت الخلا ءصاف کرنے پر ملازمین اگر چہ تعینات ہیں تاہم کچھ لوگ کھانے پینے کی چیزیں بھی بیت الخلا ءمیں پھینک دیتے ہیں، جس سے بیت الخلا ءبلاک ہوجاتے ہیں جس سے گندگی پھیلنے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے ۔ سبھی بیماروں اور تیمار داروں کو اس قومی اثاثے کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہیےاور اس بات کا ثبوت دینا چاہیے کہ ہم اس قوم کے ذمہ دار شہری ہیں تاکہ یہ چراغ جلتا ہے کیونکہ اس ہسپتال سے لاکھوں لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں ۔
میں وزیر صحت محترمہ سکینہ ایتو صاحبہ سے عوام الناس کی جانب سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ صحت کا قلمدان آپ کے پاس ہے ۔امید ہے کہ لل دید طرز کا ایک اور ہسپتال جنوبی کشمیر میں قائم کیا جائے گا تاکہ دور دراز علاقوں کی خواتین کی مشکلات میں کسی قدر کمی واقع ہو اور لل دید ہسپتال پر دباؤ کسی قدر کم ہو ۔ کیونکہ پوری وادی میں اس طرز کا ایک ہی ہسپتال ہے ،جس وجہ سے اس ہسپتال پر کافی زیادہ دباؤ ہے ۔ اگر موصوفہ کی وزارت کے دوران اس طرح کا قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس کام کو دہائیوں تک یاد کیا جائے گا اور اس شاندار کام کی گونج بڑی دیر اور بڑی دور تک سنائی دے گی۔
(رابطہ ۔اویل کولگام۔7006738436 )