رحیم رہبر
میں روز کی طرح آج بھی کینواس پر لکیروں میں شداد کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میری آنکھوں میں آج ایک ٹھہرائو تھا۔۔۔ ایک سکون تھا ایک اُمید تھی!
’’تمہارے بُرش کے دیئے ہوئے گھائو ہنوز ہرے ہیں۔۔۔۔ بُرش آہستہ۔۔۔دھیرے دھیرے چلائو‘‘۔
’’یہ جانی پہچانی آواز تھی۔ مجھے دفعتاً یاد آگیا جب سرلا دردِ زہ میں مبتلا تھی تب بھی یہ آواز میری سماعت سے ٹکرائی تھی۔
’’اِرّم بنے گا۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں ہاں اِرّم ضرور بنے گا۔‘‘ اُس قلندر کے منہ سے جملہ بار بار نکل رہا تھا جو اچانک میرے آنگن میں نمودار ہوا تھا۔ اُس قلندر کے ہاتھ میں خالی کشکول تھا۔ جونہی قلندر میرے آنگن سے باہر نکلا سرلا نے بچے کو جنم دیا۔ سرلا کے شوہر عزیزمیرنے بچے کا نام شدادؔ رکھا۔
شدادؔ بچپن سے ہی چالاک تھا۔ اُس کی ادائیں نرالی تھیں۔ اُس کی حرکات انوکھی تھیں! بچے کی پرورش خوب سے خوب تر ہوئی۔ دونوں میاں بیوی نے شدادؔ کو بہت ہی ناز سے پالا۔ اُسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شادی کے چودہ سال بعد اُن کی دعا قبول ہوئی تھی۔ عزیز میر ایک بڑی جائیداد کا اکیلا وارث تھا۔ انہوں نے شہر کے ایک نامی گرامی سکول میں بچے کا داخلہ کرایا۔ بارہویں جماعت میں شدادؔ نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس طرح شدادؔ نیشنل انسٹیچوٹ آف انجینئرنگ (NIE)میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
پانچ سال بعد شداد اب مکمل طور پر انجینئر بن چُکا تھا۔ اُس نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نئی دریافتیں کیں اور جدید انجینئرنگ میں ایک نام کمایا۔
والدین کو بس ایک فکر ستا رہی تھی کہ کب شدادؔ کی شادی ہوجائے۔ شداد والدین کے برعکس سوچتا تھا۔
شدادؔ کو عورت ذات سے کیوں نفرت تھی، اس سوال کا مجھے کبھی جواب نہیں ملا۔ خیر والدین کے شدید اصرار پر شدادؔ نے ہاں کردی۔ شدادکی شادی شہر کے ایک رئیس کی اکلوتی بیٹی کے ساتھ ہوئی جو پیشے سے ڈاکٹر تھی۔
ڈاکٹر یا سمینہ بہت ہی چالاک تھی۔ وہ اپنے شوہر سے زیادہ اُس کے جائیداد سے پیار کرتی تھی۔ ابھی شادی کو صرف چار ہی مہینے ہوئے تھے کہ ڈاکٹر یاسمینہ نے فارم ہائوس اُس کے نام کرنے کے لئے کہا۔ شداد نے ایسا کرنے سے صاف انکار کیا۔
ایک دن ڈاکٹر یاسمینہ نے شداد کو لانگ ڈرائیور پر لیا۔ دورانِ سفر اُس نے شدادؔ کو بے خودی کی دوائی پلائی۔ تھوڑی دور جاکر ڈاکٹر یاسمینہ نے کار روک لی اور شداد کے خالہ زاد بھائی اسد کو کار میں بٹھایا۔ ایک سنسان جگہ پر ڈاکٹر یاسمینہ نے کار روک لی۔ انہوں نے شداد کو بے حسی کی دوائی پلائی۔ Over Doseکی وجہ سے شداد کی موت ہوئی۔ ڈاکٹر یاسمینہ نے اپنے شوہر کی لاش کو ہسپتال تک پہنچانے کا ڈرامہ رچایا اور اس ہیبتناک قتل کو قدرتی موت Natural Deathبتایا۔ اسد یہ سارا کھیل خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
عزیز میر اور ماں سرلا پہ قیامت آن پڑی۔ اپنے لخت جگر کی بے وقت موت نے اِن کو توڑ کر بکھیر دیا۔
اللہ کے درپہ دیر ہے اندھیر نہیں۔ یاسمینہ کے عاشق کا ضمیر جاگ اُٹھا۔ اُس نے پولیس کے سامنے اعتراف ِ جرم کیا اور ڈاکٹر یاسمینہ کار سارا راز فاش کیا!
’’تمہارے برش کے دیئے ہوئے گھائو اب بھی ہرے ہیں، دیکھو ان سے خون رِس رہا ہے!‘‘
لیکروں میں سرلااُبھر کر آئی۔
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،موبائل نمبر؛9906534724