راجہ یوسف
’’ عامر یہ چھپا چھپی کا کھیل اب بہت ہوگیا ہے ۔۔۔ یہ اب مجھ سے نہیں ہوتا۔۔۔ بس اب اسے کوئی خوبصورت انجام دے دو۔۔۔ پلیز عامر پلیز‘‘ نجمہ نے مضبوطی سے عامر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر کہا تھا ۔
شام سے نجمہ کی یہی باتیں اسے پریشان کر رہی تھیں۔ پورے کمرے کوسناٹے نے اپنی دبیز چادر میں لپٹا رکھا تھا۔ سگریٹ کے دھویں سے فضا بھی گھمبیر ہو رہی تھی۔ عامر سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا اور ساتھ ہی بڑی بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ اندرونی کشمکش کا کرب اس کے چہرے پر صاف نظر آرہا تھا ۔ اُس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہاتھا کہ وہ کڑیوں کو کیسے ملائے ۔ ۔۔۔۔۔ اشرف کو وہ اصلی بات کیسے کہہ پائے گا ۔۔۔ یہ سوچتے ہی اس کے ہاتھوں سے پسینے چھوٹ رہے تھے، پر وہ حیران بھی تھا کہ وہ اتنی معمولی بات پر اتنا نروس Nervous کیوں ہو رہا تھا ۔۔جبکہ پریشان ہونا اس نے زندگی میں کبھی سیکھا ہی نہیں تھا ۔ اس کی زندگی بڑے بڑے حادثات سے پُر تھی ۔
بچپن سے ہی عامر میں شوخی اور چنچلاپن کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، وہ ہر محفل میں اپنا رنگ بکھیر دیتا تھا۔ اس کی باتیں دوسروں پر جادو کا اثر کرتی تھیں۔ کالج میں پہنچتے ہی اس کی شوخی نے اور ہی گل کھلانے شروع کئے۔ لڑکے لڑکیاں سارے اس کے گرویدہ بنتے گئے۔ شکل وصورت تو اللہ نے اچھی بخشی ہی تھی ،لیکن باپ کی دولت کو خرچنے میں بھی کبھی کوئی کنجوسی نہیں دکھا رہا تھا، جس کی وجہ سے اسکے ارد گرد بھیڑ لگی رہتی تھی۔ وہ بھی پوری طرح باخبر تھا اور ان چیزوں کا بھر پور فائیدہ بھی اٹھا رہا تھا۔ وہ اس بھنورے کی طرح نہیں تھا جو ایک ہی پھول کے ارد گرد منڈلاتا رہتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو آزاد بلبل کی طرح سمجھتا تھا جو ہر خوبصورت چمن کو اپنی میراث سمجھتا ہے۔ اس لئے کالج میں بھی اسکی دوستی مختلف اوقات میں بدلتی رہتی تھی۔ نہرو پارک کی طرف جاتے شکارے میں جس کے ساتھ صبح کی شروعات ہوتی تھی وہ چشمہ شاہی کی اُترتی ملائم پگڈنڈی پر چہل قدمی کرتے ساتھ نہیں ہوتی ۔ دوپہر کا کھانا جس کے ساتھ سنتور کے خوبصورت ڈائننگ ہال میں ہوتا تھا تو شام کی چائے باغِ نشاط کی نشاط انگیز پھلواری میں کسی اور کے ساتھ ہوتی تھی۔ شالیمار کی بالادری سے شفق کی لالی کا نظارہ کرانے والی کوئی اور ہوتی تو کسی اور کے ساتھ چارچناری کی سرمئی شام میں گم ہوجانے کی باتیںہوتی تھیں ۔ گلمرگ کی پھسلتی پہاڑیوں میں دن کو معطر بنانے والے اور ہوتے تھے تو پہلگام کی دلکش وادیوں میں رات کو رنگین بنانے والے دوست اور ہی ہوتے تھے۔
جہاں خدا نے اسے عیش و آرام کی چیزیں حد سے زیاد ہ میسر رکھی تھیں، وہاں اس کو تازہ ذہن بخشنے میں بھی کوئی بخیلی نہیں دکھائی تھی، اس لئے ہر امتحان اچھے نمبرات لیکر پاس کرتا گیا۔ گھر میں پیسے کی فراوانی تھی اسلئے انگلینڈ میں باقی تعلیم حاصل کرلی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر واپس آکر وہ ایک سال کے اندر ہی شہر کا مشہور ترین بیرسٹر بن گیا تھا۔ گھر کا اکلوتا اور ماں کا لاڈلا تھا، اس لئے ماں کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوگئی۔ ویسے بھی ایک بیرسٹر کے لئے رشتوں کی کیا کمی تھی مگر ماں کو ابھی کوئی گھر پسند نہیں آیا تھا۔ کہیں پہ لڑکی اچھی نہیں تھی تو کہیں پر لڑکی کی ماںکی عادتیں خراب تھیں۔ آخر بہت دوڑدوپ کے بعد بات پکی ہوگئی۔ لڑکی اچھی تھی،گھر بار اچھا تھا اور خاص کر لڑکی کی ماں کی عادتیں عامر کی ماں سے کسی قدر ملتی جلتی تھیں ۔ پسند ماں کی تھی اس لئے عامر کو بے چون وچرا قبول کرنی ہی پڑی۔
عامر کی بیوی آصفہ اچھے گھرانے کی لڑکی تھی اس لئے پہلے ہی دن سے سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانے لگی۔ آصفہ کی ایک اور بہن نجمہ تھی، دونوں کی شادی اکٹھے ہوگئی ۔ نجمہ کا شوہر اشرف شہر کے نامور ڈاکٹروں میں سے ایک تھا۔شادی کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات ضروری تھی لیکن پہلی ہی ملاقات میں عامر نے اس بات کو محسوس کیا کہ نجمہ آصفہ سے خوبصورت ہے اور ڈاکٹر اشرف بھی اتنا خوبصورت نہیںہے جتنا خود عامر۔ عامر حیران تھا کہ یہ پانسہ کیسے پلٹ گیا۔
گذرتے وقت کے ساتھ ملاقات کے مواقعے بھی بڑھتے گئے، ان ملاقاتوں کے دوران ہی عامر نے محسوس کیا کہ نجمہ اسے کچھ خاص انداز سے دیکھ رہی ہے۔ عامر چونکہ اس میدان کا پرانا کھلاڑی رہ چکا تھا اور نظروں کی زبان اچھی طرح سے سمجھتا تھا، اس لئے دو چار ملاقاتوں کے بعد ہی وہ نجمہ کے قریب آگیا۔ نجمہ کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر آہستہ آہستہ بچی کھچی دیواریں بھی منہدم ہو گئیں۔
وقت گذرتا رہا، خفیہ ملاقات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ پھر جب چھپا چھپی کھیل سے اکتاہٹ ہونے لگی تو آزادی سے جینے کی خواہش جنم لینے لگی اور دونوں نے ایک حیران کن فیصلے کو آخری شکل دینے کا منصوبہ بنایا ۔
اب شام سے عامر یہی سوچ رہا تھا کہ وہ بات کہاں سے شروع کرے گا۔۔۔ کیسے اپنے ہم زلف ڈاکٹر اشرف کو بتا دے گا۔۔ وہ کڑیوں کو کبھی جوڑ دیتا تھا تو کبھی خود ہی ان کو الگ کر دیتاتھا۔۔۔ ایش ٹری ادھ جلے سگریٹوں سے بھرچکی تھی۔ لیکن وہ پھر بھی سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا۔ کوئی بھی بات اس کے ذہن میں ٹھیک طرح سے نہیں بیٹھ پا رہی تھی۔۔۔۔۔ آخر تنگ آکر اس نے خیالات کوجھٹک دیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ لیکن وہ رات اس نے انگاروں پر کاٹ لی تھی ۔
اگلے دن جب وہ اپنے دفتر پہنچا تب تک نجمہ کے بہت سارے فون آچکے تھے۔ اسے تسلی دے کر اور آفس کے ضروری کام نپٹا کر وہ ڈاکٹر اشرف کے کلنک کی طرف چلا گیا۔ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی اس کے ہاتھوں سے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس کی حالت بہت زیادہ ابتر تھی۔۔۔وہ چاہتا تھا کہ یہ راستہ لمبا ہوتا جائے اور وہ صدیوں تک بھی داکٹر اشرف کے کلنک پر نہ پہنچ پائے، لیکن آخر کار وہ اشرف کے کلنک تک پہنچ ہی گیا۔
ـ’’ اوہ عامر صاحب، آیئے آیئے۔۔۔۔چلئے اندر روم میں بیٹھتے ہیں‘‘ ڈاکٹر اشرف اس کو اندر سٹنگ روم میں لیکر آگیا ۔۔۔عزت سے بٹھایا۔۔۔ اچھی چائے سے اس کی خاطرداری کی۔۔۔ لیکن عامرکے چہرے پر اب بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔۔۔۔
’’ عامر صاحب ، شرمندہ ہوں، کئی بار سوچا آپ سے ملنے کے لئے آئوں، پر کام سے فرصت ہی نہیں ملتی ہے ۔۔۔ خیر یہ اچھا ہی ہوا جو آپ خود یہاں تک آگئے ‘‘ ڈاکٹراشرف کا چہرا سپاٹ تھا، پر عامرکے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ وہ اشرف کے ساتھ نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔
’’ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں کیا ؟ ‘‘ اشرف نے جیسے عامر کی بے چینی کو محسوس کیا۔ وہ غور سے اُس کا چہرا دیکھ رہا تھا، عامر نے اشرف کے چہرے کی طرف لمحہ بھر دیکھا، اور جلدی جلدی کہنا شروع کیا۔
ـ’’ دیکھئے اشرف صاحب! میری عادت رہی ہے کہ میں ہر بات سامنے کہہ دیتا ہوں۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ میں آپ کا گنہگار ہوں۔ میں نے اخلاق سوز غلطی کی ہے، لیکن اس میں قصور صرف میرا ہی نہیں ہے، بلکہ پہل نجمہ کی طرف سے ہی ہوئی ہے۔۔۔ نہ جانے ہم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ۔ ہم رشتوں کا بھی لحاظ نہیں کر پائے ۔۔۔ لیکن اب ہم اس اونچائی پر کھڑے ہیں جہاں سے ہمارا لوٹ آنا ناممکن ہے ۔۔۔۔میں چاہتا ہوں آپ نجمہ کو طلاق دیں‘‘ عامر نے بات جلدی میں کہہ تو دی، لیکن اس کے ذہن میں گھنٹیاں بج رہی تھیں ۔۔۔ اِدھر اُس کی باتیں سن کر بھی اشرف کے چہرے پر کسی بدلائو کا تاثر نہیں آیا تھا، جس کی وجہ سے عامراور زیادہ پریشان ہو رہا تھا ۔
ڈاکٹراشرف نے میز کی دراز کھولی اس میں سے دو کاغذ نکال کر عامر کے سامنے رکھ دیئے۔۔۔ عامر نے متحرانہ انداز میں پہلے کاغذ پھر ڈاکٹراشرف کی طرف دیکھا۔
’’یہ دو طلاق نامے ہیں ۔۔۔نجمہ کے طلاق نامے پر میں دستخط کر چکا ہوں ۔۔۔آپ آصفہ کے طلاق نامہ پر اپنے دستخط کر دیجئے‘‘
ڈاکٹراشرف اوربھی کچھ کہہ رہا تھا ، لیکن عامر ایک لفظ بھی نہیں سن پا رہا تھا۔۔۔اشرف کی کہی باتیں اس کی اَنا، اس کی غیرت کو چھلنی کر رہی تھیں اوراحساسِ ندامت سے اس کا سرجھکا جا رہا تھا ۔
���
اسلا م ا?باد،اننت ناگ، موبائل نمبر؛9419734234