عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
غزہ //غزہ کے رہائشی علاقے میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تقریباً 109 افراد جاں بحق اور درجنوں لاپتا ہو گئے جہاں حملے میں بڑی تعداد میں لوگوں کے زخمی ہونے کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس اسرائیلی حملے میں بڑی تعداد میں بچے بھی جاں بحق ہوئے جسے امریکا نے ہولناک قرار دیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے یہ بمباری ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب غزہ میں امداد فراہم کرنے والی اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی کو صہیونی ریاست نے کام کرنے سے روک دیا تھا جس کی اسرائیلی اتحادیوں سمیت عالمی برادری نے شدید مذمت کی تھی۔اسرائیل کی جانب سے پانچ منزلہ عمارت کو نشانہ بنایا گیا جس کے ملبے سے ریسکیو کا عملہ لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے میں مصروف ہے، جبکہ سڑک پر جابجا کمبل سے ڈھکی ہوئی لاشیں قطار میں رکھی ہوئی ہیں۔غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابونصر کے خاندانی گھر پر حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 93 ہو گئی ہے جبکہ 40 لوگ لاپتا اور درجنوں زخمی ہیں۔اسرائیل کی فوج نے کہا کہ وہ حملے کے حوالے سے رپورٹس پر غور کر رہے ہیں جہاں اس سے قبل اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ افواج نے غزہ میں حماس کے 40جنگجوؤں کو ہلاک کردیا جبکہ کارروئی میں چار فوجی بھی ہلاک ہوئے۔30 سالہ ربیع الشنداگلی نے کہا کہ دھماکا رات کو ہوا اور میں نے پہلے سوچا کہ یہ گولہ باری ہے ۔
لیکن جب میں طلوع آفتاب کے بعد باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ لوگ ملبے کے نیچے سے لاشوں، اعضا اور زخمیوں کو نکال رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں اور لوگ زخمیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہاں کوئی ہسپتال یا مناسب طبی امداد میسر نہیں۔ادھرامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ایک ہولناک واقعہ ہے جس کے خوفناک نتائج برا?مد ہوئے ہیں، ہم نے اسرائیلی کی حکومت سے اس حوالے سے دریافت کیا ہے۔گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے کی کارروائی میں تقریباً 1200 اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ شروع کیا تھا جو 12 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہے۔اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کی تمام ترسیل کو سختی سے کنٹرول کرتا ہے اور گزشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی ایجنسی خطے میں تارکین وطن کو ضروری امداد، اسکول اور صحت عامہ کی سہولیات فراہم کر رہی تھی۔
تباہی خوفناک :یورپی یونین
عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
برسلز// یورپین یونین نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کے علاقے بیت لاہیہ میں کی جانے والی تباہی کو خوفناک قرار دے دیا۔یورپین یونین نے غزہ کے علاقے بیت لاہیہ میں ہونے والی خوفناک اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے۔اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے یورپین یونین کے یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا کہ غزہ میں بیت لاہیہ کی تصاویر خوفناک ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز کے ایک اور حملے میں کم از کم 100 افراد مارے گئے ہیں۔جوزپ بوریل نے کہا ہے کہ اس جنگ میں شہریوں کے تناسب اور تحفظ کے اصولوں کو بے دردی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے، ہم اس کی مذمت اور احتساب کا مطالبہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں 07 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیلی پر حماس کے حملہ کے بعد سے عسکری جارحیت جاری رکھا ہے جس میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 43,061 ہو گئی ہے ۔
انروا” پر پابندی کوبین الاقوامی تنقید کا سامنا
یو این آئی
تل ابیب// اسرائیلی پارلیمنٹ نے پیر کے روز اقوام متحدہ کے زیر انتظام فلسطینیوں کو امداد پہنچانے والی ایجنسی “انروا” پر پابندی عائد کرنے کا قانون منظور کر لیا۔ یہ قانون 90 روز کے اندر لاگو ہو جائے گا جب کہ اس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔اسرائیل کے اس اقدام کو وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے یہاں تک کہ یہ تل ابیب کے قریب ترین اتحادی واشنگٹن کو بھی مشکل میں ڈال دے گا۔بیرونی امداد کے امریکی قانون کے تحت واشنگٹن ان ممالک کو فوجی امداد پیش نہیں کر سکتا جو امریکا کی انسانی امداد پہنچنے کی راہ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر رکاوٹ ڈالیں۔امریکا نے 13 اکتوبر کو ایک خط میں اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ میں انسانی صورت حال بہتر بنانے کے لیے 30 روز کے اندر اقدامات کرے یا پھر امریکی فوجی امداد پر ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرے ۔
اسی خط میں واشنگٹن نے انروا پر پابندی کے فیصلے سے بھی خبردار کیا تھا۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو میلر نے منگل کے روز صحافیوں کے سامنے واضح کیا کہ امریکی قانون کے تحت اسرائیلی اقدام کے نتائج سامنے آئیں گے ۔ادھر ناروے نے باور کرایا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کرے گا جس میں تل ابیب کی پاسدارایوں کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کی رائے طلب کی جائے گی۔اروے کے وزیر خارجہ نے منگل کے روز کہا کہ “اس بات کی وضاحت اب بھی ایک منطقی امر ہے کہ کیا چیز قانونی ہے اور کیا غیر قانونی … خواہ یہ راتوں رات سیاسی تبدیلی کی صورت اختیار نہ بھی کرے “۔اس حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا کہ “کیا اسرائیل امریکا، دیگر ممالک اور بین الاقوامی انسانی تنظیموں کو فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کی پیش کش پر پابندی عائد کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے ؟”۔