سلمہ رسول۔بیروہ
الله کی بے شمار نعمتوں سے ایک بڑی نعمت اولاد ہے۔سننے میں یہ معمولی سا لفظ لگتا ہے مگر اس لفظ اور نعمت کی قدر ان سے معلوم کریں جو اس نعمت سے محروم ہے۔جس طرح باقی نعمتوں کے متعلق آخرت کے دن الله تعالی سوال کرے گا،اسی طرح اولاد کے متعلق بھی الله تعالی پوچھے گا۔
اگر اولاد کو والدین ایسی تربیت سے نوازے جو اسے نیک،صالح اور فرمانبردار بنادے تو یہی اولاد زندگی کے ہر موڑ پہ اپنے والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی۔والدین اگر اولاد کی تربیت میں آزادی چھوڑ یں ، اسے صحیح اور غلط، ادب اور بے ادبی،جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا نہیں سکھائے گے تو ایسی اولاد والدین کےلئے عذاب کا باعث بن سکتی ہے۔ایسی اولاد سے بڑھاپے میں کوئی توقع نہیں رکھ سکتے۔ایسی اولاد والدین کےلئے جہنم کی وجہ بن سکتی ہے۔والدین کا حق ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کریں۔وہ انکو رسول الله ؐ کے کردار سے باخبر کریں۔وہ انکو اس دورِ فتن میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنا سکھائے۔ہمارے معاشرہ کی تہذیب بدل رہی ہے۔ آج چھوٹے چھوٹے بچے ے دل و دماغ فحشیات سے بھرے ہوئے ہیں ۔ اب اس کا ذمہ دار کون ہے؟
والدین آج کل اپنے کاموں میں مصروف ہوکر اپنے بچوں کے متعلق بے خبر ہیں، والدین اپنی اولاد کوصرف یہ بولتے ہیں،آپکو پڑھنا ہے،ڈاکٹر،انجینئر،پروفیسر وغیرہ بننا ہے۔یہ کوئی بولتا ہی نہیں ہے کہ اے ہمارے لاڈلے!آپ کو ڈاکٹر،انجینئر کے ساتھ ساتھ ایک با اخلاق،دین دار،سچ بولنے والا بھی بننا ہے۔آپ کو اس دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ہمارا ساتھ نبھانا ہے۔آپ کو یہاں کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آخرت کے سخت امتحان میں بھی کامیاب ہونا ہے۔بہت ہی کم والدین ایسے ہیں، جو اس طرح کا خیال رکھتے ہیں مگر اکثریت ایسے والدین کی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کا کردار اورمستقبل خود تباہ کیا ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ والدین کیسے اپنے بچوں کو اس دور میں انکا کردار اور مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ بچے کو اگر بچپن ہی میں ایسی تعلیم و تربیت سے نوازا جائے جو اُسے ایک صالح اولاد بنادے تو یہ سب سے زیادہ بہتر ہے۔اسکی مثال ایک عمارت جیسی ہے۔اگر عمارت کی بنیاد کمزور ہو تو اس پر ہم مضبوت عمارت کھڑا نہیں کرسکتے۔اسی طرح اگر والدین اپنی اولاد کی بنیاد ہی کمزور رکھیںتو اُس کی تعلیم پہ لاکھوں کرکے بھی اس کی کمزوری کا اثر زایل نہیں ہوگا۔ظاہر ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو الله تعالی نے اسکا رزق اسکی ماں کا دودھ رکھا ہے۔مگر آج ہماری تہذیب نے ایک ماں کو بھی بدل دیا ہے،وہ بچے کو اپنے دودھ کے بجائے پاؤڈر والا دودھ اسلئے پلا دیتی ہے کہ کہیں اسکی خوبصورتی میں کمی نہ آئے۔
کاش آج کی ماں کا ذہن ان ماؤں جیسا ہوتا جنہوں نے اپنے بچوں کو محدث،اسکالر بنا دیا۔علامہ اقبالؒ کی ماں کے بارے کسی نے سنا ہوگا۔ان کا شوہر سود کا کاروبار کرتا تھا۔اس کام سے وہ اپنے شوہر سے ناخوش تھیں۔ جب علامہ اقبال پیدا ہوئے تو انھوں نے اسے اپنا دودھ نہیں پلایا اور وجہ یہ تھی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ انکا بچہ ایک بھی دانہ حرام کا کھائے،انھوں نے اپنے زیورات بیچ کر ایک بکری خرید لی اور اس کا دودھ اپنے بچے کو پلایا ۔ایسی ماں جن کی خواہش تھی کہ میرا بچہ علماء کی صحبت میں رہے۔امام شافعی ؒ کی والدہ،جن کا شوہر انتقال کر گیا تھا۔انھوں نے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کےلیے جدوجہد کی،ان کی پرورش کی اور ان کو مکہ بھیجا تاکہ وہ علماء کے درمیاں اپنا بچپن گزارے۔عصر حاضر کی ماں کو بھی اپنے بچے کی تربیت ایسے ہی کرنی چاہئے کیونکہ آج کی تہذیب نے ہمارے معاشرے کو بگاڑ کے رکھا ہے۔ہم اپنے بچوں کو اچھے اچھے اسکولوں میں درج تو کرتے ہیں مگر انکی تربیت خود نہیں کرتے ہیں۔المیہ ہے آج بچہ دو سال کا ہوجاتا اسکو ایسے اسکولوں میں درج کرتے ہیں جہاں اس کی ذمہ داری کسی اور کو سونپتے ہیں۔جو ذمہ داریاں ایک ماں کو انجام دینی ہوتی ہیں وہ دوسری عورتیں انجام دیتی ہیں۔کیا یہ بچہ بڑا ہوکر اپنے والدین کا وفادار بن سکتا ہے۔کیا اس کے دل میں والدین کےلیے محبت ہوگی۔ ماں کا چہرہ اپنے بچے کی کتاب کا پہلا سبق ہوتا ہے۔وہ بچہ تعلیم یافتہ ضرور بنے گا مگر تربیت یافتہ نہیں۔
ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی جہنم کی آگ سے بچائیں،ان کی اصلاح کریں اور انکی بہتریں تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی سنواریں۔لیکن آج اگر ہم دیکھیں،اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو بولتا ہے کہ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کروں،تو وہ جواب میں وہ یہی کہتا ہے کہ تم نے اپنے بچوں کی کیسی تعلیم دی اور کس طرح کی تربیت دی ہے۔
ایک بچہ قوم کا مستقبل ہے۔اگر یہ بگڑ گیا تو کل اس قوم کا مستقبل بھی بگڑ سکتا ہے۔اپنے اولاد کی حفاظت کریں۔اس کو دنیاوی فتنوں اور آخرت میں جہنم کی آگ سے بچائے۔خود کو مثالی والدین بنائیں،اولاد لائق بنے گی ۔جب ہمارا بچہ کسی امتحان میں اچھے نمبرات سے کامیاب نہیں ہوتا تو ہم اس سے کہتے ہیںکہ کتنا بڑا ہوگیا ہے پھر بھی سب کے پیچھے رہ گیااور جب یہی بچہ نماز نہیں پڑھتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ ابھی چھوٹا ہے ،بڑا ہوکر پڑھے گا۔کئی والدین اپنے بچوں کےلیے فکر مند رہتے ہیں کہ کہیںانکے بچےکوئی غلط کام نہ کر بیٹھے۔کیونکہ اُنہیں اپنے بچوں کے عادات اور کرتوت کا علم ہوتا ہے۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے اولاد کی صحیح تربیت کریں۔ الله سے دعا گو رہیں کہ اُن کی اولاد نیک و صالح بنیں۔ وہ والدین جو ا پنے بچوںمیں غلط روی، فحاشی ، دوسری کوئی بُرائی و خرابی دیکھیںاور خاموشی اختیار کریں ،اُن کی اولاد دن بہ دن مزید بگاڑ کی شکار ہوجاتی ہےاور جو والدین بر وقت اُن میں سدھار لانے کی کوشش کرتے ہیں ،وہ بالآخر لائق اولاد ثابت ہوجاتی ہے۔ اس لئےاپنے بچوں کو اچھی عادات و آداب سے نوازے اور یہ سب تب ہی ممکن ہو جب والدین اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر صرف چھے یا چار گھنٹے اپنی اولاد کے ساتھ رہیں۔جب والدین خوددین دار بنیںپھر بچوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔زندگی خوبصورت ہے اور اسکا ایک خوبصورت حصہ ہمارے بچے ہیں۔یہ بچے پھول کی مانند ہے۔ اگر ہم پھول کو ہر روز پانی ڈالیں تو یہ دن بدن نکھرے گا ۔خالص ہوتا ہے وہ پیار جو والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔الله تعالی ہمیں نیک و صالح والدین بنائے، ہمیں صالح اولاد سے نوازےاور ہم سب کو بچوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین