یو این آئی
واشنگٹن// امریکی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر بیل بیرنز نے اپنے اسرائیلی اور قطری ہم منصب کے ساتھ غزہ اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک نئے فارمولے پر بات چیت کی۔ اس فارمولے کے تحت تجویز پیش کی گئی ہے کہ 28 روز کی مدت کے لیے جنگ بندی عمل میں لائی جائے ، اس کے ساتھ حماس تنظیم 8 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے اور اس کے مقابل اسرائیل درجنوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے ۔ یہ بات انگریزی ویب سائٹ ایکزوزنے منگل کے روز اسرائیلی ذمے داران کے حوالے سے بتائی۔تاہم اس فارمولے میں حماس کا مرکزی مطالبہ شامل نہیں جس پر وہ گذشتہ مہینوں کے دوران قائم ہے ۔ وہ مطالبہ غزہ کی پٹی سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور جنگ کا خاتمہ ہے ۔ایک اسرائیلی ذمے دار نے واضح کیا ہے کہ “اگر فریقین میں سے کسی نے بھی اپنے موقف میں لچک پیدا نہ کی تو کسی بھی معاہدے تک نہیں پہنچا جا سکے گا”۔معلوم رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کل پیر کے روز زور دیا تھا کہ وہ جنگ کے خاتمے پر نہیں بلکہ صرف جزوی سمجھوتے پر آمادہ ہوں گے ۔امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر بیل بیرنز نے اتوار کو دوحہ میں قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی اور موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بارنیا سے ملاقات کی تھی۔توقع ہے کہ قطری اور مصری وساطت کار آئندہ دنوں کے دوران میں حماس کے ذمے داران کے ساتھ ملاقات کریں گے تا کہ نیا پلان زیر بحث آ سکے ۔ اگرچہ کئی مبصرین کے مطابق اس حوالے سے زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔یاد رہے کہ تقریبا 50 اسرائیلی قیدی (100 میں سے ) ابھی تک غزہ کی پٹی میں یرغمال ہیں۔ ان افراد کو حماس تنظیم نے سات اکتوبر 2023 کو ‘غلافِ غزہ’ میں واقع اسرائیلی یہودی بستیوں اور فوجی اڈوں پر اچانک حملے میں قیدی بنا لیا تھا۔ادھرآئرلینڈ کی حکومت نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں انروا ایجنسی کو کام سے روکنے کی مذمت کرے اور اس اقدام کے خلاف کھڑی ہو جائے ۔انروا فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی ہے ۔ایک برطانوی نیوز ایجنسی کے مطابق آئرش وزیر اعظم سیمون ہیرس اور نائب وزیر اعظم مچل مارٹن نے انروا ایجنسی کے خلاف اسرائیل کی مہم پر اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے ۔ دونوں شخصیات نے اسرائیلی فیصلے کے نتائج بالخصوص غزہ میں محصور شہریوں کے لیے محدود امداد پر اثرات کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کیا۔آئرلینڈ کی حکومت نے اسپین، ناروے اور سلووینیا کے ساتھ ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا ہے ۔ بیان میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس رائے شماری کی مذمت کی گئی ہے جس کے تحت اسرائیل کے زیر قبضہ اراضی میں انروا ایجنسی کے کام کرنے پر پابندی ہو گی۔پارلیمنٹ میں اسرائیل اور اقوام متحدہ کی مذکورہ ایجنسی کے درمیان سرکاری تعلقات منقطع کرنے پر بھی ووٹنگ کی گئی۔یہ پیش رفت اسرائیل کے اس دعوے کی روشنی میں سامنے آ رہی ہے کہ انروا کے حماس تنظیم کے ساتھ نہایت مضبوط تعلقات ہیں، انروا اس دعوے کو یکسر مسترد کرتی ہے ۔آئرش وزیر اعظم سیمون ہیرس نے اسرائیلی فیصلے کو “تباہ کن اور شرم ناک” قرار دیا۔ان کا کہنا ہے کہ “میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہوں جو اسرائیل اور انروا کے بیچ رابطے پر پابندی عائد کر دے گا۔ اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو پھر انروا کا علاقے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔ اس میں شدید ضرورت مند افراد کو انسانی امداد پیش کرنے کا عمل شامل ہے “۔