تحقیقی ماہرین
برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بیٹھ کر کام کرنے کے بجائے کھڑے ہوکر کام کرنے سے فالج اور امراض قلب جیسی بیماریوں سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔عام طور پر خیال کیا جاتا رہا ہے کہ بیٹھ کر کام کرنا خطرناک ہے، اس سے امراض قلب اور فالج سمیت دیگر بیماریوں کے خطرات بڑھتے ہیں۔
اسی طرح خیال کیا جاتا رہا ہے کہ بیٹھنے کے بجائے ڈیسک کے ساتھ کھڑے ہوکر کام کرنا صحت کے لیے فائدہ مند ہیں، تاہم اب نئی تحقیق اس دعوے کو مسترد کرتی ہے۔
طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق برطانوی ماہرین نے 88 ہزار افراد کے ڈیٹا پر تحقیق کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی کھڑے ہوکر کام کرنے سے فالج اور امراض قلب نہیں ہوتے۔ماہرین نے جن افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، ان میں زیادہ تر کی عمریں 61 برس تھیں اور ان میں نصف خواتین تھیں۔ماہرین نے تحقیق سے قبل اور بعد میں رضاکاروں کی صحت کا جائزہ لیا اور پھر رضاکاروں کے بیٹھنے اور کھڑے ہوکر کام کرنے کا دورانیہ دیکھ کر سات سال بعد ان کی صحت کا جائزہ لیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر کام کرنے سے فالج اور امراض قلب جیسی بیماریوں سے نہیں بچا جا سکتا جب کہ مسلسل کھڑے رہنے سے ٹانگوں اور ہاتھوں میں سنسناہٹ جیسی شکایات بڑھ سکتی ہیں جو کہ ذہنی مسائل کا سبب بن سکتی ہیں۔نتائج سے معلوم ہوا کہ زیادہ بیٹھنا اور زیادہ کھڑا ہونا دونوں نقصان دہ ہیں، البتہ مسلسل بیٹھنے کے بعد کچھ دیر کے لیے کھڑا ہونا بہتر حکمت عملی ہے۔ماہرین کے مطابق مسلسل 12 گھنٹوں تک بیٹھ کر کام کرنے والے افراد میں بھی وہیں طبی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں جو کہ دو گھنٹے کھڑے ہوکر کام کرنے والے افراد میں ہو سکتی ہیں۔ماہرین نے واضح کیا کہ مسلسل 10 گھنٹے تک بیٹھے رہنا اور مسلسل دو گھنٹے سے زیادہ کھڑے ہوکر کام کرنا دونوں ہی طبی پیچیدگیاں بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
پاکستانی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر، بلڈ شوگر اور کولیسٹرول میں اضافہ خصوصی طور پر فالج کے خطرات کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جب کہ ناقص طرز زندگی اور ورزش سے دوری بھی فالج بڑھنے کے اسباب ہیں۔ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ متحرک زندگی گزارنے، چہل قدمی برقرار رکھنے اور ورزش کو معمول کا حصہ بنانے سے فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے جب کہ اچھی غذا بھی مرض سے دوری میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
عالمی یوم فالج کے موقع پر 22 اکتوبر کو آگاہی کیمپ کا انعقاد کیا گیا، جہاں صحافیوں کی فالج کی اسکریننگ کی گئی۔ 50 کے قریب صحافیوں کی بلڈ شوگر، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول سمیت ہڈیوں کی کمزوری کی اسکریننگ کرکے ان میں فالج کے خطرات کو جانچا گیا۔ ماہر نیورو فزیشن اور نیورو سرجنز نے بتایا کہ بلڈ شوگر، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں اضافہ فالج کی بڑی وجہ ہیں جب کہ ناقص طرز زندگی اور غذا بھی فالج کے امکانات کو بڑھانے میں مددگار ہوتی ہیں۔انہوں نے فالج کی ابتدائی علامات کو پہچاننے اور فوری طبی مدد حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے بتایا کہ فالج کی علامات میں چہرے کے ایک طرف جھک جانا، بازوؤں یا ٹانگوں میں کمزوری اور بولنے میں دشواری شامل ہیں۔انہوں نے متوازن غذا کو برقرار رکھنے، جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہنے اور سگریٹ نوشی سے پرہیز کرکے اپنی صحت کا خیال رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ڈاکٹر نبیلہ سومرو نے خواتین میں فالج کے بڑھتے ہوئے خطرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہارمونل تبدیلیاں، خاص طور پر حمل اور بعد از پیدائش، فالج کے خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو اپنی صحت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور حمل کے دوران ڈاکٹروں سے باقاعدہ رابطہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی خطرے کی بروقت نشاندہی کو یقینی بنایا جا سکے۔ فالج کے خطرے کو کم کرنے کے لیے باقاعدہ ورزش کو ان کے معمول کا حصہ ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر ثاقب انصاری نے بچوں اور نوجوانوں میں فالج کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ فالج صرف بڑوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کم عمر افراد کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔انہوں نے نوجوانوں میں فالج کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی وجہ غیر صحت بخش خوراک، موٹاپے اور جسمانی سرگرمی کی کمی کو قرار دیا۔
�����������������?