ایس معشوق احمد
طارق شبنم کا شمار کشمیر کے ان قلمکاروں میں ہوتا ہے جنہیں ستاروں سے آگے کے جہاں کی تلاش رہتی ہے اور جو افسانہ بننے کے عشق میں ہر امتحان سے گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ صنف افسانہ پر فریفتہ اور اردو زبان کے عاشق طارق شبنم نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے گمشدہ دولت میں اعتراف کیا تھا کہ ’’میں نہیں جانتا کہ میں لکھنے کے ہنر سے
آشنا ہوں کہ نہیں، میرے قلم سے سیاہی ٹپکتی ہے کہ لہو، میں نے اچھا لکھا کہ برا‘‘۔ان کے دوسرے افسانوی مجموعے ’’بے سمت قافلے ‘‘ کا مطالعہ جن خوش قسمت قارئین نے کیا ہوگا وہ میری بات سے اتفاق کریں گے کہ طارق شبنم افسانہ بننے کے ہنر سے آشنا ہیں اور ایک درد آشنا افسانہ نگار ہیں جو لوگوں کے مسائل ، ان کے دکھ درد، ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے غمگین ہوتا ہے اور اس غم اور فکر کو جب افسانے کا روپ دیتا ہے تو ان کے قلم سے سیاہی کے بجائے لہو ٹپکتا ہے۔ طارق شبنم اب برا لکھنے کی منزلوں سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں اور اب وہ افسانہ نگاروں کے اس کارواں کی قیادت کررہے ہیں جو لگاتار صنف افسانہ کو فروغ دے رہے ہیں ۔ طارق شبنم کے قلم سے یک بعد دیگرے بہترین افسانے تخلیق ہورہے ہیں۔
طارق شبنم کے افسانے آدمی کو انسان بننے کا درس دیتے ہیں ،نیکی کرنے پر ابھارتے ہیں ، دوسروں کی مدد کرنے اور سکھ دکھ میں کام آنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کے ولولے کو بالیدگی عطا کرتے ہیں۔افسانہ شکور بھنگی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جس کا مرکزی کردار ایک بیوہ کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہے، اس کے گھر کا چولہا جلے ، اس کے بچے تعلیم پائے اس کے لئے قرض لیتا ہے یہاں تک کہ چوری کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔کسی کی ریگستان جیسی زندگی میں امید کے پھول کھلانا ، مجبوری کی جلتی آگ کو سہارے اور چارہ سازی کی بوندوں سے ٹھنڈا کرنا ،جھلستی دھوپ میں سائے رحمت کی مانند آگے آنا نیکی اور بھلائی ہی تو ہے۔ شکور بھنگی ایک مجبور بیوہ پر احسان کرتا ہے اور بدلے میں یہ دعا پاتا ہے کہ رب اسے جج کی سعادت نصیب فرمائے۔اس دعا کے طفیل شکور بھنگی کو لوگوں کی نظروں میں گناہ گار ہونے کے باوجود حج جیسی سعادت نصیب ہوتی ہے اور مکمل حج کے بعد وہ سجدے میں قابل رشک حالت میں اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔لوگ شکور بھنگی پر رشک کرتے ہیں اور اس جیسی موت کی تمنا کرتے ہیں۔شکور بھنگی بیوہ کی مدد تو کرتا ہے لیکن کبھی اس کے گھر کی دہلیز پار نہیں کرتا بلکہ سامان باہر رکھ کر بیوہ کو بلاتا ہے۔ افسانہ رخصتی میں نہ صرف ہندو مسلم بھائی چارے کی عکاسی کی گئی ہے بلکہ یہ بھی سبق دیا گیا ہے کہ کسی کی مدد کرنے کے لئے مذہب اور ذات پات نہیں دیکھی جاتی بلکہ انسان اور انسانیت کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ سرلا دیوی نہایت پریشان ہوتی ہے کیونکہ اس کی بیٹی لکشمی کی شادی میں بس دو دن رہ گئے تھے۔ خراب حالات اور کرفیو کی وجہ سے وہ گھر سے باہر نہیں نکل پائی تھی اس لئے سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔احسان احمد فرشتہ بن کر ضروری سامان ، شادی کا جوڑا ، بناؤ سنگھار کا سامان، وازوان میں کام آنے والی اشیاء ، مشروبات اور دیگر چیزیں سرلا دیوی کے گھر لاکر باقی سارے انتظامات کو حتمی شکل دیتا ہے۔ احسان احمد کے احسان سے رخصتی دھوم دھام سے ہوتی ہے اور یوں ایک مجبور ماں اپنی لاڈلی بیٹی کو خوشی خوشی وداع کرتی ہے۔افسانہ بابا سائیں کا مرکزی کردار قدرت اللہ جو بابا سائیں کے نام سے مشہور ہے لوگوں کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔شاکر کی مدد کرنے کے لئے بابا سائیں اپنا سونے کا مڈل کم قیمت پر فروخت کرتا ہے تاکہ شاکر کو مطلوبہ رقم مہیا کرسکے۔
کشمیر کے قلمکاروں نے عصر حاضر کے نت نئے مسائل کے ساتھ ساتھ انسان کے جذبات اور قلبی واردات کی عکاسی اپنے افسانوں میں کی ہے اسی حد تک محدود نہ رہے بلکہ اردگرد کے ماحول ، یہاں کے قدرتی مناظر ، پہاڑ ، بیابان اور ندی نالوں،آبشاروں اور ریگ زاروں کی تصویر کشی سے بھی اپنے افسانوں کے حسن میں اضافہ کردیا ہے ۔طارق شبنم بھی پیچھے نہیں رہے ان کے ہاں بھی کشمیر کی خوبصورتی کی عکاسی، یہاں کے حالات ، یہاں کے رہن سہن ،لوگوں کے مسائل ، ان کے جذبات اور احساسات کا عکس دیکھنے کو ملتا ہے۔جس طرح تازہ ہوا کے جھونکے سے عطر مل جائے تو چاروں اور خوشبو پھیلتی ہے اسی طرح طارق شبنم کے یہاں موضوع اور اسلوب ، زبان اور اس کے ورتاؤ سے ایسی مہک پیدا ہوتی ہے جو قاری کی طبیعت کو معطر اور شاد کرتی ہے۔ افسانہ زخمی دلہن میں جہاں کشمیر کی خوبصورتی بیان ہوئی ہے وہیں اس خوبصورتی میں چار چاند لگانے والے جھیل ڈل کی ابتر صورتحال کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس خوبصورت دلہن کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں اور اس کا سارا جسم زخمی ہے۔اس خوبصورت جھیل کو زخمی کس نے کیا ؟ اس سجی سجائی دلہن کو خود غرض عناصر نے نوچ نوچ کر کھایا ہے ، اس کے شفاف پانی کو لوگوں نے گندہ کیا ہے ،تجاوزات اور تعمیرات نے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اسے اپاہچ بنا دیا ہے۔طارق شبنم نے مسئلے کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے اور اپنی ذمہ داری سے دست بردار ہوگئے ہیں۔اب اعلی حکام تک ہے کہ وہ قوم کے اثاثے کو کیسے بچائے اور جنت کو دوزخ نہ بننے دے۔ طارق شبنم جھیل ڈل کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
’’ قدرت کا کتنا انمول تحفہ ہے یہ، بے مثال کاریگری اور مصوری کا نادر شاہکار جس کے نام۔پر لاکھوں دل ڈھڑکتے ہیں۔اگر وادی فردوس بریں ایک دلہن ہے تو یہ خوبصورت جھیل بلاشبہ اس دلہن کے ماتھے کا جھومر ہے۔نہیں۔۔۔۔نہیں یہ پرکشش جھیل تو خود ایک دلہن کے مانند ہے جس کے حسن و جمال اور دلکشی کا کوئی ثانی نہیں۔۔‘‘
طارق شبنم کے افسانوں میں موضوعات کا تنوع ہے۔یہاں گھریلو حالات سے لے کر قومی حالات تک اور قومی سے لے کر بین الاقوامی حالات تک کو موضوع بنایا گیا ہے اور انہوں نے اپنی بات آسان اور سادہ زبان میں کہنے کی کوشش کی ہے۔ان کے افسانے ٹھنڈا جہنم ، پریم نگر، میٹھا زہر ، بے سمت قافلے ، کالا قلعہ ، کالی ناگن ، حی علی الفلاح وغیرہ پڑھ کر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور یہ یقین بھی کہ وہ اس قافلے کی رہنمائی کرسکتے ہیں جن کو اپنی منزل کی خبر نہیں، جو لکھ تو رہے ہیں لیکن موثر لکھنے کے راز سے ابھی بے خبر ہیں۔طارق شبنم نے ان کے لئے ان مٹ نشان چھوڑے ہیں۔ان کے قدموں کے نشان اس بے سمت قافلے کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے کافی ہیں جو ادب کے میدان میں چل تو رہے ہیں لیکن ابتدا سے بے خبر اور انتہا سے لاعلم۔ کرشن چندر عصمت چغتائی کے بارے میں لکھتے ہیں___
’’عصمت کا نام آتے ہی مرد افسانہ نگاروں کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ شرمندہ ہو رہے ہیں۔ آپ ہی آپ خفیف ہوئے جارہے ہیں۔ ‘‘
اسی سے ملتا جلتا خیال مجھے بھی آیا کہ طارق شبنم کا نام آتے ہی موٹی موٹی تنخواہیں پانے والے پروفیسروں اور اردو کا نوالہ کھانے والے بے مروتوں کو دورے پڑتے ہوں گے ، ان کا نام سن کر ان نامہربانوں کی غیرت جو سو نہیں گئی بلکہ نیم مردہ ہوکر کوما میں چلی گئی ہے جاگ جانی چاہیے،ان کے کارناموں کو دیکھ کر انہیں شرمندگی محسوس ہونی چاہیے کہ اردو کی بدولت عہدہ ،رتبہ اور عزت ملنے کے باوجود وہ بے مروت کیوں نہیں یوں اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں جیسے طارق شبنم ادب کی سیوا کررہے ہیں۔طارق شبنم کسی اسکول یا کالج میں اردو نہیں پڑھاتے پھر بھی اس زبان سے محبت رکھتے ہیں اور لگاتار لکھ رہے ہیں اور اس بے سمت قافلے کو صحیح راستہ دکھا رہے ہیں جو دور کسی صحرا میں اپنا راستہ بھٹک گیا ہے۔
رابطہ :-8493981240