۔2سگی بہنوں کے رشتے ادھورے رہ گئے، کئی کے خواب چکنا چور

Mir Ajaz
4 Min Read

عاصف بٹ

ملواڈ ون( مڑوا)//تباہ حال ملواڑون مڑواہ کے گائوں میں زندگی کی سبھی رعنائیاں ختم ہوچکی ہیں۔ آگ میں مجموعی طور پر 84 مکانات 100 سے زائد کنبے، 57گائو خانے اور7 دکانیں جل کرخاکستر ہوئے جس سے تقریباً 400 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ابھی ملواڑون کے گائوں میں تقریباً سبھی 80کنبے رشتہ داروں کے ہاں عارضی طور پر قیام پذیر ہیں ، تاہم صرف 5کنبے مقامی پنچایت گھر میں پناہ گزین ہیں۔گائوں میں اکتوبر کے مہینے تک شادی بیاہ اور منگنی وغیرہ کی سبھی رسمیں پوری کی جاتی ہیں کیونکہ نومبر سے اس علاقے میں کبھی بھی برف گر سکتی ہے اور یہ علاقے منقطع ہوجاتے ہیں۔محمد رمضان وانی ان بد قسمت والدین میں سے ایک ہیں جن کا سب کچھ لٹ چکا ہے اور جن کے ہاں کسی قسم کی تقریب ہونے والی تھی۔وانی کی 2بیٹیوں کی شادی 23/24اکتوبر کو طے تھی۔ انکا کہنا ہے کہ بیٹیوں کیلئے زیور، کپڑے، دیگر سامان سمیت قریب 1کروڑ روپے کی شادی بیاہ کیلئے اشیاء جمع کی تھی جو سب کچھ جل کر راکھ میں تبدیل ہوگئی ہے۔اب اسکے پاس پھوڑی کوڑی بھی نہیں ہے۔80 سالہ عبدالجمال گزشتہ چار روز سے سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ان پر یہ کس طرح کی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔گائوں کے مردوزن 16 اکتوبر کی اس دوپہر کو یاد کرکے لرز رہے ہیں جب آگ کے شعلوں نے غریب لوگوں کے خواب چکنا چور کئے اور اپنے پیچھے تباہی کا ایک بڑا نشان چھوڑ دیا۔یہاں کسی بھی مکان میں کچھ بھی نہیں بچ سکا،سب کچھ راکھ میں بدل گیا ہے۔تباہ شدہ مکانوں کی خاموش دیواریں اپنی تباہی کو بیان کررہی ہیں، کہ کس طرح ہنستی کھیلتی بستی 30منٹ میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوئی۔جمال کا کہنا ہے کہ آگ دن کے وقت لگ گئی، اگر شام یا رات کے وقت لگ جاتی تو مالی کے ساتھ جانی تباہی بہت زیادہ ہوتی، لوگ جل کر مر جاتے۔

چار روز بعد بھی علاقے کی خواتین ایک دوسرے کو تسلی دے رہی ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر ہوتے دیکھیں گی۔ اس بھیانک واردات کا انتہائی افسوناک پہلو یہ ہے کہ کئی لڑکیوں کے گھر بسنے سے رہ گئے ہیں۔ کئی لڑکیوں کی شادی ہونے والی تھی اور کئی لڑکے بھی رشتہ از دواج میں بندھے جارہے تھے لیکن اس واردات کم از کم 80ڈھانچے خاکستر ہوکرسینکڑوں افراد بشمول بوڑھے بچے خواتین اور نوجوان لڑکیاں بے گھر ہو گئے ہیں۔ خواتین مکانوں کے ملبے کے ڈھیروں سے اپنے بچوں کیلئے اکٹھا کئے گئے سامان کی راکھ چھان رہی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ جب گائوں میں آگ لگی تو زیادہ تر مکانوں میںاسوقت صرف خواتین موجود تھیں کیونکہ مرد زیادہ تر مزدوری کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ علاقے میں پانی کی عدم موجودگی کے سبب آگ کے شعلوں کو بجھانے کیلئے لوگ صرف ہاتھ پیر مارتے رہے اور کچھ نہ کر سکے۔16 سالہ سائمہ فاطمہ نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آگ نے انکا سب کچھ جلادیا، بدن پر پہنے کپڑے ہی بچ سکے ہیں۔

Share This Article