وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع میں واقع صحت افزاء مقام سونہ مرگ کو ہمہ موسمی بنانے کی خاطر سرینگر لیہہ قومی شاہراہ پر گگن گیر کے مقام پر بنائی گئی زیڈ موڑ ٹنل کے تعمیراتی کارکنوںپر اتوار کی شام ہوا خونین حملہ نہ صرف اندوہناک ہے بلکہ قابل مذمت ہے اور مہذب سماج میں اس طرح کے حملوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔گگن گیر حملہ ،جس میں کنسٹریکشن کمپنی سے منسلک ایک مقامی ڈاکٹر اور 6تعمیراتی کارکنوںکی قیمتیں جانیں تلف ہوئیں،اپنے آپ میں یہ یاد دہانی ہے کہ ہم بھلے ہی نارملسی کے دعوے کریں لیکن جموںوکشمیر میںحالات معمول سے ابھی بھی کوسوں دورہیںکیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو گگن گیر میں یوں سر شام نہتے مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اُنہیںیوں ابدی نیند نہیں سلادیا جاتا۔یہ مزدور جموںوکشمیر اور ملک کی مختلف ریاستوںسے یہاں انتہائی مشکل ترین حالات میں محض اس لئے کام کررہے تھے تاکہ وہ اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال سکیں ورنہ آج کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو محض شوق کیلئے ایسی جگہوں پر کام کرے گا۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس بربریت کے نتیجہ میں جن لوگوںکی جانیں چلی گئی ہیں،وہ بھی اپنے گھروںکے چراغ تھے اور اُن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ سینکڑوں میل دور یہاں کام کرکے اپنے اہل خانہ کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندو بست کررہے تھے ۔دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو اس طرح کے اندوہناک حملوںکی اجازت دیتا ہو۔نہتے شہریوںپر رات کی تاریکی میں حملہ کرنا کوئی بہادری نہیں بلکہ بزدلی کی بدترین مثال ہے اور ایسے حملوں کی جتنی مذمت کی جائے ،کم ہے ۔نادیگام بڈگام کے ڈاکٹر شاہنواز سے لیکر تالاب جموںکے ششی ابرول اور بہار و مدھیہ پردیش کے دیگر مزدوروں تک سب کی ایک ہی کہانی ہے کہ یہ سارے لوگ اپنے گھروں اور اپنے پیاروں سے بہت دور صرف اس لئے ان بیابانوں میں اپنے ایامِ شب و روز گزار رہے تھے تاکہ یہاں دن رات محنت مزدوری کرکے وہ اپنے اہل خانہ کا سہار بن سکیں۔یہ سارے مہلوکین اپنے کنبوںکے واحد کمائو تھے جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ مجبوری نے اُنہیں ان پہاڑوں پر لایا تھا اور یہی مجبوری کبھی اُن کی موت کا سبب بنے گی ،اُنہوںنے کبھی سوچا بھی نہیںہوتا۔
دین ِ اسلام ،جس کے ہم ماننے والے ہیں ،امن کا مذہب کہلاتا ہے جس میں پوری عالم انسانیت کیلئے آفیت ہے ۔قر آن کا واضح پیغام ہے کہ جس نے ایک انسان کوبے گناہ قتل کیا ،گویا اُس نے ساری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک انسانی جان بچائی ،گویااُس نے ساری انسانیت بچائی ۔پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے پاس زندگی گزارنے کا ایک کامل نمونہ ہے اور اُس میں ہمیں کہیں ایسی بربریت کا شائبہ تک نہیں ملے گا۔اس کے باوجود ہماری سوسائٹی میں اس طرح بے گناہوںکا خون بہایاجائے تواس کی قطعا ً کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ دین ِ اسلام کو بدنام کرنے کا ایک مذموم فعل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے ،کم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گگن گیر حملہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ یہاں ماضی میں بھی اس طرح کے سانحات ہوئے ہیں تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب تک ہم ایسے گھنائونے حملوں کو یوں ہی جانے دیں گے اور ان کی مذمت کرنے میں اپنے لبوں کو حرکت تک نہیںدیں گے۔وقت آچکا ہے جب ہمیں خاموشی کا لبادہ اتار کرغلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرأت پیدا کرنی چاہئے ورنہ اس طرح کے سانحات یہاں ہوتے رہیں گے اور پھر وہ وقت آئے گاجب ایسے سانحات معمول بن جائیں گے اور اُنہیں غلط تصور نہیں کیاجائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے گھنائونے اور انسانیت سوز حملوں کو بہ آواز بلند رد کیاجائے اور یہ واضح پیغام دیاجائے کہ کشمیری معاشرہ کسی بھی طرح اس طرح کے حملوں کو جسٹیفائی نہیں کرتا ہے۔اس کے علاوہ اب حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حملہ کے متاثرین مکمل باز آبادکاری یقینی بنائے اور مستقبل میں اس طرح کے حملوں کو روکنے کیلئے پیشگی اقدامات کرے۔