۔5روز قبل شادیانے، آج ماتم !

Mir Ajaz
5 Min Read

امتیاز خان

نادیگام(بڈگام)//16اکتوبر، صرف 5روز قبل ، بڈگام ضلع کے نادیگام گائوں کی جس بستی میں شادیانے تھے وہ پیر کو ڈاکٹرشاہنواز کی ہلاکت کے بعد سوگوار تھی۔علاقے میں پیر کو لوگوں کا تانتا بندھا رہا اور فجر نمازکے بعد سوگوار بستی کی طرف جوق در جوق روانہ ہوئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سبھی راستے نادیگام کی طرف ہی جارہے ہیں۔سویہ بگ،دہرمنہ، وڈون، چیوہ، آرتھ اور رسو سمیت دیگر نزدیکی دیہات کے ہزاروں لوگ نادیگام میں ڈاکٹر شاہنواز کی میت کا انتظار کرتے رہے اور جونہی ایمبولینس کی سائرن بج گئی تو ہزاروں لوگ آنا فاناً جمع ہوگئے اورنعرئہ تکبیر اور قتل عام بند کرو جیسے نعروں سے علاقہ گونج اٹھا ۔بزرگ، جوان، خواتین الغرض بلا لحاظ عمر و جنس سب لوگوں کی آنکھیں نم تھیں۔کوئی رورہا تھا تو کوئی سینہ کوبی کررہا تھا، کوئی اس کی یتیمی اور محنت کا ذکر کررہا تھا تو کوئی اس کی شرافت کے پل باندھ رہا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر شاہنواز کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ہزاروں لوگوںنے شرکت کی جس کی پیشوائی مقامی امام ریاض احمد نے انجام دی۔اس صورتحال کے بیچ 52سالہ ڈاکٹر شاہنواز کو مقامی قبرستان میں سپرد لحد کیا گیا۔ڈاکٹر شاہنوازعنفوان شباب میں ہی اپنے والدین کھوچکے تھے۔

ان کے والد مرحوم غلام قادر ڈار پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر تعینات تھے ۔ابتدائی تعلیم نیشنل سکول کرن نگر سے حاصل کرنے کے بعد موصوف کو 12ویں جماعت مکمل کرنے کے بعداپنی والدہ کی ناساز طبعیت کی وجہ سے اپنے تعلیمی سفر کو دو سال تک موخر کرنا پڑا۔ماں کے انتقال کے بعد اس جفاکش اور شریف النفس نوجوان نے اپنے بچپن کے شوق کو پورا کرنے کیلئے روس کا سفر کیا جہاں اس نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔موصوف جونہی وطن واپس لوٹے تو MCIکا امتحان پاس کرنے کیلئے دن رات ایک کیا۔ایک سال بعد MCIپاس کرکے گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر سے منسلک ہسپتالوں میں اپنی انٹرن شپ مکمل کی۔مذکورہ نوجوان کی زندگی میں اس وقت خوشی نصیب ہوئی جب اسے سکمز میں کام کرنے کا موقع ملا۔سکمز میں اپنے مختصر وقفے کے دوران ہی اُسے ہندوستان کنسٹرکشن کمپنی (HCC) بانہال میں بحیثیت میڈیکل افسر نوکری ملی۔ دو سال یہاں کام کرنے کے بعد اُس نے ایچ سی سی کو خیرباد کہہ دیا اوراپکوAPCO))نامی کمپنی میں ذریعہ معاش کیلئے پہنچ گئے اور یہاں میڈیکل افسر تعینات ہوئے اور 6سال کے بعد اتوار کی شام یہیں زندگی کا اختتام ہوا۔موصوف اپنے گھر کا واحد کمائو تھا۔والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کا سہارا بن کر اُن کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔مرحوم کے چھوٹے بھائی عرفان قادر ڈارکے بقول انہیں کبھی والدین کی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا۔انہوںنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ہمارا بھائی ہر معاملے میں یکتا تھا،اُس نے اپنے بچوں اور ہمارے درمیان کبھی کوئی فرق نہیں کی‘‘۔انہوں نے کہا’’ وہ گھر کے واحد کمائو تھے۔میں نے کشمیر یونیورسٹی سے اکنامکس میں پوسٹ گریجویشن کی ہے اور ابھی روزگار کی تلاش میں ہی ہوں‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’دو بیٹے سہیل اورمحسن ابھی زیر تعلیم ہی ہیں ۔سہیل گریجویشن کررہا ہے اور محسن جموں کے ایم اے ایم کالج میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ UPSCکی تیاری میں مصروف ہے۔ ہم دونوں بھائی بھی ابھی بیروزگار ہیں لیکن کبھی ہمارے بھائی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی‘‘۔اپنے بھائی کی یاد میں ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے عرفان نے کہا ’’ اتوار کو اس کی ایک فون کال موصول ہوئی جو شائد اس کی آخری کال تھی۔رواں ماہ کی 16تاریخ کو ڈاکٹرصاحب کی اکلوتی بیٹی مسرت کی شادی تھی اوراسی سلسلے میں اُس نے بتایا کہ ساتویں پرمسرت کے سسرال جانا ہے ،اسلئے سب تیاریاںاچھی طرح کرکے رکھنا ‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’ہمیں 24تاریخ کو سسرال (سنگم صورہ) جانا تھا لیکن کیا کیا معلوم تھا کہ اس طرح قیامت ٹوٹ پڑے گی ، ہماری دلہن کو روتے بلکتے اپنے آخری دیدار کیلئے راتوں رات لوٹنا پڑے گا‘‘۔

Share This Article