شیخ بلال
کسی بھی قوم یا معاشرے کے کردار، ترقی اور کامیابی کے پیچھے ایک بہترین استاد کی محنت اور کاوش ہوتی ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں۔ استاد ہی ایک کورے ذہن بچے کو ایک بہترین انسان بناتا ہے۔ استاد ہی ایک ایسی ذات ہوتی ہے جو ایک لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف متوجہ کرتی ہے اور صحیح منزل کی طرف گامزن کرتا ہے ۔
ہماری وادی تلیل نے بھی بہت ہی باصلاحیت اور بہترین اساتذہ پیدا کئے ہیں، انہیں میں سے ایک استاذ الاساتذہ مشفق و مہربان محمد انور خان تھے، جنہوں نے ایک ایسے دور میں علم کی شمع روشن کی جس دور میں اسکول کا رواج تھانہ تعلیم کا کوئی شوق۔ خان صاحب اگرچہ وادی تلیل کے سب سے آخری گاؤں گجران تلیل میں پیدا ہوئے تھےلیکن اس وادی کے سب سے پہلے استاد بنے۔ ایسے دور میں تعلیم حاصل کی جب پوری وادی میں تعلیم کے نام پر صرف دو پرائمری اسکول تھے۔ ان اسکولوں میں بھی شاید ہی کوئی استاد موجود رہا ہوگا کیونکہ وادی میں تو کوئی پڑھا لکھا تھاہی نہیں۔ لیکن انور خان صاحب نے استاد کی کمی اور نہ ہی اندھیرے ماحول کو دیکھا اپنی لگن اور محنت سے علم کے نور سے منور ہوئے۔ فارسی اور اردو زبانوں میں تعلیم حاصل کی،انگریزی اور عربی بھی پڑھی ۔ پرائمری کے بعد تعلیم حاصل کرنے میںبیسیوں کلومیٹر دور پیدل بانڈی پورہ جانے کا کٹھن سفربھی اُن کی لگن اور شوق کے آگے رکاوٹ نہیں بن سکا اور دسویں پاس کرتے ہی اُنہیں وادی تلیل کے پہلے استاد کے بطور تقرری ہوئی ۔
ماسٹر محمد انور خان صاحب نہ صرف اردو فارسی اور انگریزی پڑھاتے تھے بلکہ اپنے شاگردوں کو قرآن شریف اور عربی کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ ان کے بہترین شاگردوں میں میرے والد صاحب بھی ہیں۔ بقول والد صاحب، انور خان صاحب جیسا مشفق اور مہربان استاد شاید ہی آج کے دور میں کہیں ہو۔ انور خان صاحب نہ صرف نصاب پڑھاتے تھے بلکہ قرآن شریف اور دینی تعلیم بھی دیتے تھے ان کی ایک ہی تمنا تھی کہ ان کے شاگرد تعلیم کے نور سے منور ہوکر بہترین انسان بن جائیں ۔ اپنے شاگردوں کو اچھے اخلاق، اچھے آداب اور اچھے عادات سکھانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اپنے گاؤں سے تقریباً تیس کلومیٹر دور اسکول پہنچ کر اخلاص اور دیانتداری سے کم قلیل تنخواہ پر اپنے شاگردوں پر محنت کرنا اور گھر میں بھی بچوں کو نصابی تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم پڑھانا خان صاحب کا معمول تھا ۔ ہمارے گاؤں بگلندر تلیل میں پہلی بار اسکول قائم کرنا اور باضابطہ ایک سرکاری اسکول میں تعلیم کا آغاز اُنہی کے ہاتھوں ہوا ہے اور میرے والد صاحب اس اسکول کے سب سے پہلے طلاب میں سے ہیں ۔
خان صاحب کی ایمانداری اور شفقت کا ہی ثمرہ ہے کہ ان کے بیٹے کامیاب ہیں اور بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ خان صاحب نے خلوص دل سے دور افتادہ وادی تلیل کے طلباء کو کامیاب انسان بنانے کی کوشش کی۔اُن کی دیانتداری، ایمانداری، شفقت اور اخلاص کا اندازہ اسی بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آج بھی ان کے شاگرد آپ کا نام بے انتہا احترام اور عزت سے لیتے ہیں، آپ کے مشفقانہ انداز ، ہمدردانہ رویہ، مخلصی اور اعلیٰ اخلاق کو یاد کرکے ان کی آنکھیں نم ہوتی ہیں اور بے شمار دعائیں دیتے ہیں ۔آپ نہ صرف اپنے شاگردوں کے ساتھ مخلص اور مشفق تھے بلکہ وادی تلیل کی بھی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوشاں تھے۔ وادی کے لئے اپنی اسی محبت اور عقیدت کے پیش نظر اپنے محدود تر وسائل بروئے کار لاکر وادی تلیل کے بارے میں ایک کتابچہ ’’ وادی تلیل کی کہانی چٹانوں کی زبانی‘‘ کے نام سے تحریر کیا تھا ۔ اُن کے اس کتابچے کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب وادی تلیل کی ترقی، خوشحالی اور کامرانی کے لئے کتنے کوشاں تھے، ہم لوگ آج وادی تلیل کو سیاحتی نقشے پر لانے، وادی تلیل کے بارے میں لکھنے اور اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن خان صاحب اُس وقت بھی اس بات کے لئے فکرمند اور بیتاب تھے ۔ ہرچند یہ کتابچہ بہت زیادہ ضخیم نہیں ہے بایں ہمہ یہ وادی تلیل کی کہانی کا احاطہ بہت بہتر طریقے سے کرتا ہے۔ وہ اپنے اس کتابچے میں لکھتے ہیں کہ وادی تلیل بے حد خوبصورت ہے، یہاں کے بلند برف پوش پہاڑ، سبزہ زار وادیاں، سرسبز جنگلات ایک خوبصورت دلہن کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ شعراء اور ادباء سے شکوہ کرتے ہوئے خان صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے شعراء و ادباء نے گل و بلبل اور عشق معشوق کی تصویر کشی کرکے دنیا کے سامنے رکھا مگر اس قدرتی حسن کی طرف توجہ مبذول نہیں فرمائی۔ لکھتے ہیں کہ یہ وادی سونہ مرگ، گلمرگ، پہلگام سے کم نہیں ہے یہاں کے سرسبز جنگل، خوبصورت آبشار اور سبزہ زار وادیاں دل کو سکون بخشتی ہیں ۔ خان صاحب شاید پہلے کاتب تھے جس نے وادی تلیل اور یہاں کے ہر گاؤں کے ناموں کی وجہ تسمیہ جمع کی اور اپنے کتابچے میں شائع کی۔آپ کے شاکردآج بھی اُنہیںماسٹر صاحب کہہ کر پکارتے ہیںاور انہیں بے حد احترام اور عزت سے یاد کرتے ہیں۔ آج کل کے اساتذہ کو ان کے جیسے بہترین استاد بننے کی تلقین کرتے ہیں ۔ خان صاحب کا نام لیتے ہی آپ کے شاگرد آپ کی گفتگو کا دل چسپ انداز، پر لطف نکتہ سنجی، آپ کی شفقت اور آپ کی خوش خلقی کو یاد کرتے ہیں ۔ خان صاحب کی مخلصی اور بہترین کاوشوں کا ہی ثمرہ ہے کہ اُن کے اکثر شاگرد اچھے عہدوں پر فائز ہیں، کوئی دینی عالم، کوئی محکمہ تعلیم میں افسر، کوئی پولیس افسر تو کئی دوسرے محکموں میں اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ 2004 میں جب خان صاحب حج کے مبارک سفر پر جارہے تھے تو پوری وادی گھوم کر اپنے شاگردوں سے ملاقات کی اور ان سے رخصت لی۔ خان صاحب اپنے دور میں گرچہ بہت اعلیٰ تعلیم نہیں دے پائے لیکن وادی تلیل جیسی اندھیری وادی کو تعلیم کے ایک ایسے راستے پر لگایا کہ آج اس کے ثمرات ہمیں ہر جگہ ملتے ہیں۔
خان صاحب نے وادی کے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت بتادی، وہاں کے لوگوں کو تعلیم کے ساتھ جوڑا، ایک ایسی شمع روشن کردی جو آج بھی پوری آن بان کے ساتھ پوری وادی کو روشنی دے رہی ہے۔ نوکری سے سبکدوشی کے تقریباً 20 سال بعد 2010 میں تقریباً 78 سال تک روشن یہ شمع اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر بجھ گئی ۔ شمع تو بجھ گئی لیکن اس کی روشنی آج بھی موجود ہے اور اس شمع نے اجالا کرکے جو راستہ دکھایا وہ راستہ اب بھی روشن ہے۔ اللہ تعالیٰ خان صاحب کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔
رابطہ۔6006796300
[email protected]