بے شک یہ بات انتہائی حوصلہ افزا،باعث اطمینان اور قابل ستائش ہے کہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سنبھالنے کےبعد دوسرے ہی دن کشتواڑ کے ملواڑونامی اُس گائوں کا دورہ کیا ،جہاں حالیہ تباہ کُن آگ نے تقریباً پوری بستی کو مسمار کرکے رکھ دیا تھا۔وزیر اعلیٰ کے ہمراہ نائب وزیر اعلیٰ اور مقامی ایم ایل اے بھی تھے۔وزیر اعلیٰ نے جہاں آگ سےمسمار زدہ پورے علاقے کا بغور جائزہ لیا، وہیں خندہ پیشانی سے متاثرہ لوگو ںکی روئیداد سُنیں ، اُن کو تسلی دی اوراُن کا حوصلہ بڑھا تے ہوئےاُنہیں یقین دلایاکہ حکومت اُنہیں ہر طرح کی امدا د فراہم کی جائے گی ،جس سے اُن کی زندگی بحال ہوگی،جبکہ انہوں نے ابتدائی امداد کے طور پر سی ایم ریلیف فنڈ سے فی کنبہ دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا اور اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ حکومت ِ جموں و کشمیر متاثرین کی مزید امداد کے لئے مرکزی حکومت سے پی ایم ریلیف فنڈ سے بھی امداد دینے کا مطالبہ کرے گی اور متاثرین کے رہائشی ڈھانچوں کو دوبارہ تعمیر کروانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی ۔وزیر اعلیٰ کے اس دورے کی عوامی حلقوں میں کافی سراہنا ہورہی ہے اور امیدکی جارہی ہے کہ جموں و کشمیر کی یہ جمہوری حکومت عوام کو درپیش مسائل اور تکالیف کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہے گی۔بلاشبہ ہر ذی ہوش فردِ بشر اس حقیقت سے واقف ہوگا کہ دنیا میں زمینی اور آسمانی آفتوں کی تاریخ انسانی وجود سےشروع ہوتی ہے۔ ان میں انسانی ہاتھ کا کوئی عملِ دخل ہو یا نہ ہوتالیکن جب یہ آفت کسی بھی شکل میں کسی انسانی آبادی پر آتی ہے ،یا تو اُسے صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے یاپھر بڑے پیمانے پر اُسےجانی و مالی نقصانات سے دوچارکرکے آلام و مصائب میں مبتلا کرجاتی ہے اور شادو آباد گھرانوں کے آشیانوں کو کھنڈر میں تبدیل کرجاتی ہےجس کے نتیجے میں انسانی زندگی کا سارانظا م تہس نہس ہوکر مفلوج ہوجاتا ہےاور متاثرہ لوگوں کے لئے زندگی کا نظام بحال کرنا ناممکن بن جاتا ہے۔ 15اکتوبر کو اسی طرح کی ایک آفت آتش زدگی کی صورت میں جموں و کشمیر کے کشتواڑ ضلع کے ایک دور دراز گائوںملواڑون مڑواہؔمیں آن پڑی، جس نے آناً فاناً اس آباد علاقے میں ایک جامع مسجد سمیت قریباً80رہائشی تعمیراتی ڈھانچوںکو خاکستر کرکے رکھ دیا ،جبکہ یہ گائوں محض ایک سو گھروں پر مشتمل ہے۔اس بھیانک آتشزدگی میں اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ،لیکن پورے گائوں کو بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلےرکھ چھوڑا۔ظاہر ہے کہ جب کسی انسانی آبادی کی زندگی بھر کی جمع پونجی ،مال و اسباب اور سَر چھپانے کے ٹھکانے چھِن جائیں تو جینے کے لئے اُن کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔بے شک ایسی سنگین صورتِ حال میںانسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق بیشترانسان، نوع ِ انسانی کی مدد کے لئے پیش پیش رہتےاور متاثرین کے ساتھی اور مددگاربنتے رہتے ہیں،لیکن کشتواڑ کےدور دراز کےاس متاثرہ گائوں میںبروقت پہنچنا اُن کے لئےممکن نہ ہوسکا۔البتہ بعد میںحکومتی ادارے حرکت میں آگئے تاہم اُن کے بروقت پہنچے سے کافی حد تک نقصانات سے بچا جاسکتا۔ افسوس ناک امر یہ رہا کہ اس گائوں کے نزدیک کوئی فائر سٹیشن بھی موجود نہیںتھا ۔اب جبکہ وزیراعلیٰ نے بذات خود صورت حال کا جائزہ لیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ متاثرین تک امدادی رقومات اور دیگرضروریا ت زندگی کے سامان پہنچانے میں تاخیر نہیں ہوگی تاکہ وہ موسم سرما کی بارشوں اور برف باری سے قبل ہی سَر چھپانے کے لئے اپنے آشیانے تعمیر کرسکیں۔ بے شک حکومت نے بھی اپنے انتظامی شعبوں میں ایک مخصوص شعبہ قائم کیا ہوتا ہے جو آفت زدہ لوگوں کی دوبارہ بحالی کے کام کاج کے لئے مامور ہوتی ہے۔تاہم اکثر دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ متاثرین کے لئے حکومت کی طرف سے جو بھی ریلیف منظور ہوتی ہے ،اُسے متاثرین تک پہنچنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔جس کے نتیجے میں متاثرین کی زندگی انتہائی اجیرن بن جاتی ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہےکہ متاثرین کو منظور شدہ ریلیف قسطوں میں دی جاتی ہے جبکہ اس دوران متاثرین کے اہل ِخانہ کی زندگی بَد سے بدتر ہوجاتی ہے ۔سردیوں کے ان ایام میں متاثرین ،بغیر آشیانوں کے زندگی کیسے اور کس طرح گزارتے ہوں گے ، یہ تو کوئی بھی ذی حِس اور باشعور انسان چاہے وہ کسی بھی شعبے سے منسلک ہو، بخوبی محسوس کرسکتا ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ نئی حکومت اپنے اُن اداروں کو متحرک کریںجو آفات سے متاثرہ لوگوں کی راحت اور بحالی کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔