مدثر مرچال،زینہ گہر
ڈاکٹر مارٹِن لوتھر کِنگ کا ایک قول ہے “It needs depths of oppression to create heights of character”۔کسی بھی طرح کے سیاسی ، سماجی یا اقتصادی بحران میں جہاں عوام کو گوناگوں مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہیں ا ن ہی حالات نے وقت وقت پر دنیا کے عظیم ہیروز اور معروف ترین سیاسی طاقتوں کو پنپنے کا سامان بھی مہیا کیا ہے۔ افریقی نیشنل کانگریس کی بات کریں جو 1994کے آس پاس نسلی عصبیت کے جواب میں اُبھری، ہنگری کی فیڈز (Fidesz ) کا ذکر کریں جو1990میں کمیونزم کے ماحول سے نکلنے اور اقتصادی بحران سے چھٹکارہ پانے کے عزم کے ساتھ وجود میں آئی، یا اسی طرح یونان کی سائرزا (Syriza) یا اسپین کی پوڈیموز کی تاریخ کو کھنگالنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سبھی جماعتیں کسی نہ کسی بحران کے بیچ ہی وجود میں آکر عوام کے لئے امید کی کرن ثابت ہوئیں۔ اسی طرح بھارت میں جنگ آزادی کے بیچ جن سیاسی جماعتوں نے جنم لیا اور صدیوں تک اپنی چھاپ چھوڑی ،ان میں انڈین نیشنل کانگریس اور موجودہ پاکستان کی مسلم لیگ قابلِ ذکر ہیں۔کیا جموں و کشمیر میں منعقد شدہ حالیہ انتخابات میں بھی نیشنل کانفرنس اسی طرح ہیرو کی مانند اُبھری ہے؟ یا پھر اس انتخاب میں کامیاب ہونا ان کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش کا سبب بن سکتا ہے جس میں کھرا اُترنا لگ بھگ نا ممکن ہے؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کا جواب صرف آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے لیکن یہاں چند حقائق اور چند نظریات کوزیر بحث لانے میں کوئی پرہیز بھی نہیں۔
آئین ہند کی دفعہ370کی منسوخی اورجموںوکشمیر تنظیم نو قانون2019کےبعد جموں و کشمیر میں لگ بھگ 5سال بعد انتخابات کا اعلان ہوا جو انتخابات چند دن قبل اختتام پذیر ہوئے اور ان میں بھاری اکثریت کے ساتھ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے حکومت سازی کی راہ ہموار کر دی۔ نیشنل کانفرنس کی جیت غیر معمولی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ نیشنل کانفرنس نے کُل 90نشستوں میں سے 42نشستیں اپنے نام کر دیں جب کہ ان کے اتحادی انڈین نیشنل کانگریس نے خالص 6نشستوں پہ اپنی جیت درج کی۔ بھاجپا نے جموں میں پُر زور مہم چلاکر بالآخر 29نشستوں پہ جیت درج کی جبکہ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی خالص 3نشستوں پر ہی سمٹ گئی۔ حالیہ نتائج کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے پورے انتخابی دنگل کا جائزہ لینا اہم ہے۔ دراصل2024کے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں نئی پرانی کئی جماعتیں اپنا لوہا منوانے کے لئے میدان میں اتر آئی تھیں جن میں جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس ، جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، انڈین نیشنل کانگریس ، پیپلز کانفرنس اور کئی چھوٹی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ واضح رہے کہ نیشنل کانفرنس اور انڈین نیشنل کانگریس نے انتخابات سے قبل اتحاد کیا تھا، جس کے مطابق نشستوں کا بٹوارا کیا جا چُکا تھا البتہ چند ایسی اسمبلی نشستیں بھی تھیں جن پر دونوں یعنی نیشنل کانفرنس اور کانگریس اپنے امیدوار کھڑے کرنے پر آمادہ تھے ،مثلاً سوپور اسمبلی حلقے میں نیشنل کانفریس اور کانگریس دونوں کے امیداوار میدان میں آمنے سامنے تھے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے بیچ پرچار کے دوران زیادہ تال میل دیکھنے کو نہیں ملا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر کئی جماعتوں نے اس اتحاد سے الگ اپنے انفرادی امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چناو میں کُچھ نئی سیاسی جماعتیں اس امید سیابھری تھیں کہ شاید اس بار وہی مردِ میدان بن کر جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب لکھیں گے۔ان میں انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی، سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی، سجاد لون کی پیپلز کانفرنس اور سابقہ مرکزی وزیر اور کانگریس کے قدیم سیاسی راہنما غلام نبی آزاد کی بنائی ہوئی ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی قابلِ ذکر ہیں۔
کشمیری قوم اس دنگل میں اپنا ہیرو تلاش کر رہی تھی جو کوئی بھی بن سکتا تھاخواہ وہ 5سال سے تہاڑجیل میں مقید انجینئر رشید ہو یا 50سال سے زیادہ لمبی سیاسی کریئر والی نیشنل کانفرنس ۔ کُچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ شائد انجینئر رشید ہی وہ ہیرو ہیں، جس کے سر سہرا بندھنا ہے کیوں کہ اسی سال کے مئی۔جون میں منعقد کئے گئے لوک سبھا انتخابات میں بارہمولہ پارلیمانی حلقے سے جب انجینئر رشید سابق وزیرِ اعلی اور نیشنل کانفرنس راہنما عمر عبدللہ کے مد مقابل میدان میں اترے تو انہوں نے عمر عبدللہ کو قریباً 2لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی ۔ اگر چہ اُس وقت لوگوں نے تہار جیل میں بند انجینئر رشید کو اس لئے ووٹ دئے تھے کہ انہیں رہائی ملے لیکن ایک ہمدردی کے احساس کے ساتھ ووٹروں کی یہ رائے بھی تھی کہ انجینئر رشید ان کی ترجمانی کے لائق ہیں۔ اس کی وجہ ہے انجینئر رشید کی بے باکی او ر اس کے مودی مخالف بیانات۔شروع شروع میں لگنے لگا تھا کہ انجینئر رشید لوگوں کے جذبات کو اپنی طرف ایک بار پھر مائل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ دوسرے کھلاڑی جو اپنی سیاسی جماعت کو بڑے پیمانے پر لانچ کر رہے تھے وہ تھے سجاد غنی لون ،جنہوں نے پیپلز کانفرنس نام کی اپنی سیاسی جماعت کی طرف سے امیدوار کھڑے کر کے کافی حد تک پرچار کیا ۔ لون صاحب کا سیاسی کریئر ذرا پیچیدہ ہے جس میں وہ دہائیوں تک علیحدگی پسند سیاست کا ڈول پیٹتے رہے اور پھر یکایک انتخابی سیاست میں سرگرم ہو گئے ۔ چند سال قبل ا ن کا ایک بیان کافی دیر تک زیرِ بحث رہا تھا جس میں انہوں نے نریندر مودی کو اپنےبڑے بھائی کا درجہ دیا تھا۔ لہٰذ ا 2024کے چناو میں سجاد غنی لون کو بھاجپا کا پروردہ تصور کیا جانے لگا اوریہ خیال کیا جانے لگا کہ سجاد صاحب کو نیشنل کانفرنس کے ووٹ تقسیم کرنے کے لئے بھاجپا نے ہی میدان میں اتارا ہے۔ وہیں دوسری طرف سید الطاف بخاری نے جموں و کشمیر اپنی پارٹی نام سے سیاسی جماعت کا پرچم بلند کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن ان کا سیاسی سفر بھی کئی دل بدلیوں اور متضاد کردارپر مشتمل رہا ہے، لہٰذا الطاف بخاری رائے دہندگان کو اپنی طرف مائل نہیں کر سکے۔
اب رہا سوال محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کا تو اس جماعت نے کئی سال پہلے ہی سیاسی طور خود کشی کر کے اپنا سیاسی سفر خود اختتام کو پہنچایا تھا۔بھاجپا کے ساتھ اتحاد بالخصوص مفتی محمد سید کی وفات کے بعد بھاجپا۔پی ڈی پی اتحاد کی محبوبہ مفتی کے ذریعے تجدیدو توسیع اس سیاسی جماعت کے لئے زہرِ ہلاہل ثابت ہوا۔پی ڈی کی نیا مزید تب ڈوبی جب محبوبہ مفتی کی سربراہی والی بھاجپا۔پی ڈی پی مخلوط سرکار میں کئی بے گناہوں کی جان گئی اور انسانی حقوق کی پامالی کے ریکارڈ ٹوٹے ۔ بھاجپا کے ساتھ اتحاد کرنے تک پی ڈی پی کی شناخت ایک بھاجپا مخالف جماعت کے طور تھی لیکن مخلوط سرکار کے دوران پی ڈی پی کا اصل چہرہ نمایاں ہوگیا اور مسیحائی کا نقاب پاش پاش ہوا ۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگرچہ نیشنل کانفرنس کے دور میں بھی وامق فاروق اور آسیہ نیلوفر جیسے دلخراش واقعات رونما ہوئے لیکن محبوبہ مفتی کا وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی موجودگی میں کھلے عام جان بحق کمسن بچوں کے خلاف بیان دینا لوگوں کے لئے حیران کُن اور قابلِ افسوس تھا جس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے اور پی ڈی پی لوگوں کے دلوں سے نکل گئی۔
دعوے ہر طرف اور ہر جماعت کی طرف سے یہی تھے کی جموں و کشمیر میں ان کی سرکار بنتے ہی دفعہ 370کو واپس بحال کر دیا جائے گا اورجموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بھی بحال کر دیا جائے گا۔ لیکن اب فیصلہ کر پانا مشکل تھا کہ کسے موقعہ دیں اور کسے نہیں۔ کُلی طور پہ دیکھا جائے تو مقابلہ انجینئر رشید کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں اور قدیم سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے امیدواروں کے پیچ ہی محدود رہا۔ انجینئر رشید نے 5سال بعد تہاڑ سے رہائی پاکر جس والہانہ استقبال کا شرف حاصل کیا، اس سے لگ رہا تھا کہ وہ میدان مار لیں گے لیکن انہیں بحیثیت امیدوار کافی حمایت حاصل تھی جبکہ ان کے چُنے ہوئے امیدوا ر لوگوں میں اپنی چھاپ چھوڑنے میں ناکام رہے۔ دوسری طرف لوگوں کو یہ بات بھی مشکوک لگنے لگی کہ 5سال سے کسی بھی طرح کی نرمی یا راحت سے محروم تہاڑجیل کے قیدی انجینئر رشید کو چنائو کے بیچ ہی کیوں خصوصی طور ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ساتھ میں اس بات کا بھی ملال ظاہر کیا گیا کہ خاندانی راج کے خلاف نعرے بلند کرنے والے انجینئر رشید نے اپنے آبائی حلقے سے اپنے برادر شیخ خورشید احمد کو میدان میں کیوں اتارا۔
ایسے میں کشمیری رائے دہندگان کو نیشنل کانفرنس ایک واحد راستہ دِکھنے لگا۔ بہر کیف یہاں کشمیری قوم نے بالغ النظری اور یکجہتی کا مظاہرہ کر کے اس بات کو مد نظر رکھا کہ کشمیر جس نے اب ریاست کا درجہ تک کھودیا ،اسے ضرورت ہے ایک طاقتور حکمران کی جو دہلی کے ساتھ ٹکر لے سکے ۔لہٰذا انہیں نیشنل کانفرنس ہی واحد راستہ دکھا۔ یہاں بالغ النظری کا مظاہرہ یوں کیا گیا کہ آزاد امیدواروں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے بیچ اپنے ووٹ تقسیم نہ کرتے ہوئے سب کی ایک ہی رائے ہوتی کہ بھاجپا ووٹوں کی تقسیم سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے تخت تک نہ پہنچ سکے۔
حاصلِ کلام یہ کہ آخر کار جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس حکومت سازی کے لئے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن نیشنل کانفرنس کی جیت کُلی طور پہ جیت نہیں مانی جاسکتی بلکہ یہ اس جماعت کی ساکھ کا کڑا امتحان ہوگا۔ جیت کے فوراً بعد ہی نیشنل کانفرنس کو یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ وہ ایک یونین ٹیریٹری کی انتظامیہ چلانے جارہے ہیں جس میں بھاجپا کالگ بھگ مکمل عمل دخل رہنے والا ہے۔ جیسا کہ قارئین بخوبی واقف ہیں، اسمبلی کے 5اراکین بھاجپا کی طرف سے نامزد جانے ہیںجو بلامقابلہ اسمبلی میںپہنچنے والے۔ نیز اسمبلی لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت رہنے والی ہے۔ ایسے میں 370 اور ریاستی درجہ کے حوالے سے جو بلند بانگ دعوے کئے گئے بلکہ جس مقصد سے رائے دہندگان نے نیشنل کانفرنس کو اسمبلی تک پہنچایا ان کی تکمیل قریب قریب ناممکن ہے۔جب پولیس اورامن وقانون جیسے اہم محکمے ان کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے تو ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ نیشنل کانفرنس اپنی ساکھ کو قائم رکھ کر نئے ہیرو کی طرح اُبھرتا ہے یا ہمیشہ کے لئے کشمیر کی سیاست سے اوجھل ہوجاتا ہے ،اس کا فیصلہ آ نے والا وقت ہی کرے گا۔
رابطہ۔9149468735
[email protected]