مشتاق تعظیم کشمیری
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ رمضان المبارک ۴۷۰ھ میں گیلان کے قصبہ نیف میں پیدا ہوئے، آپ کا لقب محی الدین اور اسم گرامی عبدالقادر، آپ کے والد کا نام ابو صالح موسیٰ جنگی دوست اور والدہ کا نام اُم الخیر فاطمہ تھا۔ آپ کی پیدائش سے قبل اور وقتِ پیدائش وبعدِ پیدائش بے شمار کرامتوں کا ظہور ہوا ،آپ نے شیر خوارگی کے زمانے میں بھی روزے کے اوقات میں شیرِ مادر نوش نہ فرمایا۔عبدالقادر جیلانی ؒ عالم اسلام کے بہت بڑے ولی اور بزرگ ہیں۔ آپ کے فیوض و برکات اور کرامات بے شمار ہیں۔ آپ نے پیغمبر اسلام ؐ کی شریعت مطہر ہ کو زندہ اور روشن کیا۔ اور آپؐ کی نیابت کا پورا حق ادا کیا۔آپؒ کے والدین کا واقعہ مشہور ہے کہ دریا سے سیب اُٹھاکر کھانے کے بعد آپ کے والد نے سید عبداللہ صومعی کی شرائط کے تحت باغ میں خدمت کی تھی اور بعد میں ان کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ جن کے بارے میں اُن کے والد نے کہا تھا کہ میری بیٹی اندھی ،لولی، بہری اور لنگڑی ہے۔ بعد میں شادی کے بعد پتہ چلا کہ خوبصورت حسین و جمیل خاتون نے اپنی آنکھ کان ہاتھ پیر اور زبان سے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ اس طرح بزرگ والدین کا اثر ان کے بیٹے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ میں نمایاں ہوا۔جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت ان کی والدہ کی عمر ساٹھ سال تھی۔ جب شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے طلبِ علم کے لیے رختِ سفر باندھا تو آپؒ کی والدہ نے بغل کے نیچے گدڑی میں چالیس دینار سی دئیے اورآپؒ کو دعا دیتے ہوئے کہا: اے عبد القادر!میں تجھے نصیحت کرتی ہوں کہ ہمیشہ سچ بولنا اور کبھی جھوٹ بات منہ سے نہ نکالنا۔اس کے بعد آپؒ ایک قافلے کے ساتھ بغداد کے لیے نکلے ۔اس سفر کے متعلق خود فرماتے ہیں – جب قافلہ ہمدان سے آگے بڑھا تو اچانک ڈاکو ہم پر ٹوٹ پڑے ۔انھوں نے قافلے کا سارا مال لوٹ لیا،مگر مجھے کچھ نہ کہا۔تھوڑی دیر بعد میرے پاس ایک ڈاکو آیا اور مجھ سے پوچھا: تیرے پاس کیا ہے ؟میں نے سچ سچ بتا دیا:میرے پاس چالیس دینار ہیں ۔اس کے بعد ایک اور ڈاکو آیا،اس نے بھی یہی سوال کیا۔میں نے اسے بھی سچ سچ بتا دیا،ان دونوںنے اپنے سردار سے یہ ماجرا بیان کیا۔ پھر مجھے سردار کے پاس لے گئے ۔سردار نے مجھ سے پوچھا:سچ بتا تیرے پاس کیا ہے ؟میں نے کہا ،چالیس دینار ہیں ۔اس نے پوچھا:کہاں ہیں ؟میں نے کہا،بغل کے نیچے گدڑی میں سلے ہوئے ہیں ۔اس نے گدڑی کو ادھیڑ کر دیکھا تو وہ نکل آئے ۔سردار نے حیران ہو کر پوچھا:تم جانتے ہو ہم ڈاکو ہیں اور ہمیں جو مال ملتا ہے اسے ہم لوٹ لیتے ہیں ؟پھر تم نے اس راز کو چھپا کر کیوں نہ رکھا؟میں نے جواب دیا:میری والدہ نے مجھے یہ نصیحت کی ہے کہ میں ہمیشہ سچ بولوں ۔ یہ سن کر سردار زبردست متاثر ہوا ۔اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا:افسوس!تم نے اپنی ماں کا عہد نہیں توڑا اور میں اتنی مدت سے اپنے اللہ کا عہد توڑ رہا ہوں ۔یہ کہہ کر وہ میرے قدموں پر گر پڑا اور توبہ کی۔اس کے ساتھیوں نے یہ کیفیت دیکھ کر اس سے کہا:رہزنی میں تو ہمارا سردار تھا اب توبہ میں بھی تو ہمارا پیش رو ہے اور ان سب نے میرے سامنے توبہ کر لی اور قافلے کا سارا مال انھیں واپس کر دیا۔آپؒ نے نوے سال کی عمر میں بتاریخ ١١ربیع الآخر ٥٦١ھ مطابق ١١٨٢ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے۔ کثرتِ ہجوم کے باعث رات کے وقت آپ کا جسم اقدس سپردِ خاک کیا گیا۔ بغداد شریف میں آپ کا مرقد ہے۔ آپ کی دعوت وتبلیغ نے ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو منزلِ مقصود سے ہم کنار کردیا، جس کی وجہ سے آپ کا لقب ’’محی الدین‘‘ مشہور ومعروف ہوگیا۔ آپ کے اسلوبِ دعوت وتبلیغ اور خطبات سے زمانہ آج بھی فیض یاب ہورہا ہے۔
رابطہ۔9797995330