کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی،خوشحالی اور آگے بڑھنے میں اُس کی دور اندیشی ، منصوبہ بند طریقے سے کام کرنےاور مثبت سوچ کے تحت حکمتِ عملی بنانے کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہےاور جس قوم یا معاشرے میں ان چیزوں کا فقدان ہوتا ہے ،وہ ہر معاملے میں ناکام و نامراد ہوجاتی ہیں۔اپنے کشمیری معاشرے پر نظر ڈالی جائے تو گویا ہمیں اِن ہی چیزوں سے زیادہ نفرت رہی ہے۔ناک کے آگے سے زیادہ دور تک دیکھنے کی ہم نے کوشش ہی نہیں کی،جہاں کسی نے کوئی جذباتی نعرہ لگادیا، بھڑک کر اُسی کے ساتھ ہولئے اور یہ تک نہ دیکھا کہ اُس کی بات قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔اصول پرستی کو بالائے طاق رکھ کر جس شخصیت سے محبت کی اُس کے بارے میں اِتنے غلو سے کام لیا کہ ہر خوبی ہمیں اُسی میں نظر آئی ،خواہ وہ دینی اعتبار سے تھی یا علمی و سیاسی اعتبار سے ۔ہم نےاُس کی کسی طرح کی خامی کو تسلیم ہی نہ کیا اور نہ اُس کی کسی رائے سے اختلاف کو برداشت کیا ،چاہے وہ رائے بجائے خود کتنی ہی غلط کیوں نہ ثابت ہوئی ہو۔دوسری قوموں کا عام مزاج یہ ہے کہ کہ اگر وہ خوبیوں کو اُجاگر کرتی ہیں تو خامیوں کی پردہ پوشی بھی کرتی ہیں،وہ نہ تو کسی شخص کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ اُس سے اختلاف ِ رائے رکھنے والے کسی شخص کی اندھی دشمنی میں حدیں پھُلانگتے ہیں۔بے اعتدالی کے اس مرض نے ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے مُشکلات اور مسائل پیدا کئے ہیں ۔یہ بات ہرفرد کے لئے بھی اہم ہے اور جماعت کے لئے بھی کہ ہر کام غور وخوض کے بعد سوچے سمجھے طریقے سے کرے اور وقتی اشتعال میں آکر نہ تو اپنی راہ کھوٹی کرے اور نہ اپنے طے شدہ راستے سے ہٹے،لیکن ہمارا مزاج کچھ ایسا بگڑ گیا ہے کہ ہم بہت جلد اشتعال میں آکر غلط قدم اٹھالیتے ہیں ،جس کے نتیجے میں جہاں ہمار ا ہی نقصان ہوتا رہا ہے وہیں اغیار اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کوتاہ اندیشی،اشتعال پذیری ،شخصیت پرستی ،جلد بازی اور شوریدہ سری کے نتیجے میں ہمارا ہر معاملہ اور ہر مسئلہ بگڑتا چلا جارہا ہےاورہمارا معاشرہ آج تک کچھ بھی حاصل نہیں کرپایا ہے۔حالانکہ جس عقیدے کے ہم دعویدار ہیں، اُس میں تو صبر و تحمل سے کام لینے کی تعلیم دی گئی تھی اور سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے اور پھر قدم اُٹھانے کے بعد استقامت سے کام لینے کا درس بھی دیا گیا تھا لیکن ہم ہیں کہ آگ کے شعلوں کی طرح بھڑک جاتے ہیں اور پانی کے چند چھینٹوں سے بجُھ جاتے ہیں،جتنی جلد ناراض ہوتے ہیں اُس سے زیادہ تیزی سے خوش بھی ہوجاتے ہیں اور بہل بھی جاتے ہیں،گویاپانی کے بُلبُلے کی طرح اُٹھتے ہیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں ،نہ ہماری حمایت قابلِ اعتبار اور نہ ہی مخالفت۔اور اسی مزاج کی صحیح عکاسی کرتے ہوئے آج سے تقریباً ساٹھ سال قبل کشمیر کے ایک نامور سُلطان نے دِلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کیا خوب کہا تھا کہ ’’چالیس لاکھ میرے ساتھ ہیں ،چالیس لاکھ شیخ صاحب کے ساتھ اور چالیس لاکھ صادق صاحب کے ساتھ بھی ہیں‘‘۔اسی دوہرے معیار و کردار کا ثبوت موقع بے موقع اپنے ردِ عمل کی صورت میں دیتے رہے ہیں اور آج بھی صورت ِحال اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔آج بھی یہ قوم ِ کشمیربے نگہبان کا ایک ریوڈ معلوم ہوتی ہے اور ہر کَس ناکَس کو اس کے معاملات میں دخل اندازی کرنے اور انتشار پھیلانے کی مکمل آزادی ہے،نہ توقوم متحد ہے اور نہ ہی قیادت۔ایک ہی ڈال کے پنچھی ہونے کے باوجود ہماری قیادت بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں مصروف ہے۔دوسری قوموں میں شدید اختلاف کے باوجود آپس میں اتحاد و اتفاق ہے،ایک دوسرے کی رائے کی مخالفت کے باوجود وقعت ہے،وہ آپس میں در پردہ بلکہ علی الاعلان مشورے بھی کرلیتے ہیں اور ہم ہیں کہ کسی قائد کی حمایت یا اُس کی حمایت میں ہونا اِسی کو سمجھتے ہیں کہ اُس کی مخالف جماعت سے برسرپیکار رہیں اور اس کی توہین و تذلیل کریں۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور عبرت حاصل کرنے کے آثار اب بھی نمایاں نظر نہیں آتے اور مختلف صورتوں میں اب بھی اُن کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے ،انجام ِ کار ہمارا ہر نعرہ ،ہر معاملہ اور ہر مسئلہ طرح طرح کے مشکلات اور پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کا باعث بن رہا ہے۔کیا ذاتی اور چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اس قوم کے دور رس مفادات کو قربان نہیں کیا جارہا ہے؟ ہماری منتشر قیادت یہ بات اپنے ذہن و قلب میں اُتار لے کہ بے سوچے سمجھے عاجلانہ اقدام کے بجائے اصلاح ِ حال کی تدابیر اختیار کرنا ہی دانش مندی اور کامیابی کا راستہ ہے اور بے تیاری کے نارَوا کش مکش کی راہ اپنا کشمیری قوم کو تباہ کُن صورتِ حال سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔