مسعود محمود خان
مسلم اُمہ، جو دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی آبادی اور 57آزاد اسلامی ممالک پر مشتمل ہےاور دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے، جو اس وقت دنیا کے ایک اہم حصّے کی نمائندگی کرتی ہے، لہٰذا یہ اُمہ عالمی منظرنامے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ مسلم دنیا میں تقریباً 1.8بلین سے زائد مسلمان بستے ہیں، جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 24 فیصد ہیں۔ ان میں زیادہ تر آبادی مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں مرکوز ہے۔ تاہم اتنی بڑی آبادی اور وسائل کے باوجود عالمی سطح پر مسلم اُمہ مختلف داخلی اور خارجی چیلنجز کی وجہ سے سیاسی کمزوری کا شکار ہے۔ اس وسیع اُمہ کو ایک مشترکہ مذہب اسلامی تاریخ اور ثقافتی اقدار سے جوڑا جاتا ہے، لیکن مختلف چیلنجز نے انہیں عالمی سطح پر مختلف مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہم یہاں مسلم اُمہ کے عالمی منظر پر مسائل، اثرات، چیلنجز، اور ممکنہ حل کا جائزہ لیں گے۔
مسلم ممالک عالمی معیشت، سیاست اور ثقافت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی اکثریت قدرتی وسائل خاص طور پر تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہیں، جو عالمی توانائی کی ضروریات کا ایک بڑا حصّہ پورا کرتے ہیں۔ سعودی عرب، ایران، عراق اور قطر جیسے ممالک اپنی قدرتی دولت کی بدولت عالمی معیشت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اسلامی دنیا کی ثقافت، فنون اور اسلامی تعلیمات نے بھی عالمی سطح پر ایک اہم کردار ادا کیا ہے، جس نے تہذیبوں کی ترقی میں مثبت اثرات ڈالے ہیں۔
مسلم اُمہ کی عالمی سیاسی صورتحال : مسائل اور امکانات
مشرق وسطیٰ جو مسلم اُمہ کا قلب سمجھا جاتا ہے، طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ اس خطے میں اہم اسلامی ممالک جیسے سعودی عرب، ایران، عراق، شام، یمن، اور لیبیا میں سیاسی تنازعات اور جنگیں جاری رہی ہیں۔ خاص طور پر ایران اور سعودی عرب کی سرد جنگ جو مختلف فرقوں (شیعہ اور سنی) کے درمیان بھی فرق پیدا کرتی ہے، خطے کی تقسیم اور تنازعات میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے اور بعد ازاں شام میں خانہ جنگی نے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار کیا۔ اس کے نتیجے میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خلا پیدا کیا اور عالمی سطح پر دہشت گردی کی نئی لہریں پیدا کیں۔ ان جنگوں نے لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کیا اور خطے کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ کے نتیجے میں یمن بدترین انسانی بحران کا شکار ہے۔ لاکھوں افراد بھوک اور بیماریوں کا شکار ہیں اور اس جنگ کا فوری حل نظر نہیں آتا۔
شمالی افریقہ میں لیبیا، مصر اور الجزائر جیسے ممالک میں بھی سیاسی عدم استحکام موجود ہے۔ لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں خانہ جنگی اور انتشار جاری ہے۔ مصر میں 2011ء کے عرب بہار کے بعد سیاسی استحکام کے بجائے مزید چیلنجز پیدا ہوئے ہیںاور کئی سال سے فوجی حکومت قائم ہے۔ حالیہ برسوں میں سوڈان بھی داخلی تنازعات اور سیاسی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ حالیہ خانہ جنگی اور اقتدار میں فوجی مداخلتوں نے ملک کی صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک مسلم اکثریتی ہیں، لیکن یہاں بھی سیاسی عدم استحکام اور تنازعات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی اور حکومتی تبدیلیاں عام ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں حکومت اور فوج نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کامیاب آپریشن کئے ہیں، لیکن ملک کو ابھی بھی اندرونی اور بیرونی سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد سے صورتحال میں شدید چیلنجز درپیش ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم اب افغانستان کی صورتحال سدھرتی نظر آرہی ہے۔ملک میں بھی مسلمان اقلیت کو مذہبی بنیادوں پر بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک اور تشدّد کا سامنا ہے۔
مسلم اُمہ کی ایک بڑی سیاسی کمزوری اس کے اندر اتحاد کی کمی ہے۔ اسلامی ممالک کے درمیان داخلی تنازعات اور فرقہ وارانہ تقسیم عالمی سطح پر ان کی کمزور پوزیشن کو مزید بگاڑ دیتی ہے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) جیسے پلیٹ فارمز بھی ابھی تک مؤثر طریقے سے ان ممالک کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عالمی طاقتیں خاص طور پر امریکہ، روس اور چین، مسلم ممالک کی سیاست میں مداخلت کرتی رہتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی جنگوں اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعے عالمی طاقتوں نے کئی اسلامی ممالک کو کمزور کیا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ بھی عالمی سطح پر ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے، جس میں اسرائیل کی پالیسیوں اور مسلم ممالک کی ناکامی نے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔مسلم دنیا میں بیشتر ممالک اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔ تیل پر انحصار کرنے والے ممالک، جیسے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں، عالمی اقتصادی اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوتی ہیں۔ دیگر اسلامی ممالک جیسے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کو اقتصادی بحرانوں، قرضوں اور بے روزگاری کا سامنا ہے۔ اقتصادی بدحالی کا براہ راست اثر سیاسی استحکام پر پڑتا ہے۔ مسلم ممالک کو عالمی سطح پر سفارتی میدان میں کمزوری کا سامنا ہے۔ اسلامی ممالک کے اندرونی مسائل اور ان کی بین الاقوامی سفارتکاری میں ناکامی نے ان کے اثر و رسوخ کو کم کر دیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر اسلامی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتی ہیں، خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں میں۔ یہ مسائل مسلم دنیا کی عالمی حیثیت کو متاثر کرتے ہیں۔عالمی سطح پر مسلم اُمہ کی سیاسی صورتحال چیلنجز سے بھری ہوئی ہے۔ داخلی تنازعات، فرقہ وارانہ اختلافات، خارجی دباؤاور معاشی مسائل نے مسلم دنیا کو ایک پیچیدہ اور نازک مقام پر پہنچا دیا ہے۔ تاہم اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک داخلی سطح پر سیاسی استحکام پیدا کریں، اپنی معیشت کو مضبوط کریں اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط سفارتی تعلقات قائم کریں۔ مسلمانوں کے مسائل کا حل داخلی اصلاحات، تعلیم، اتحاداور بین الاقوامی سطح پر مؤثر پالیسیوں میں پوشیدہ ہے۔ اگر مسلم اُمہ اپنے وسائل اور انسانی صلاحیتوں کو درست طریقے سے استعمال کرے تو وہ عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
مسلم اُمہ اور
عالمی اقتصادی نظام: مواقع اور چیلنجز
عالمی اقتصادی نظام کا مطلب وہ عالمی مالی اور تجارتی نیٹ ورک ہے جس کے ذریعے دنیا کے ممالک باہمی تجارت، سرمایہ کاری، اور مالی تعلقات قائم رکھتے ہیں۔ یہ نظام ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ایک دوسرے سے منسلک کرتا ہے، جہاں عالمی ادارے جیسے کہ عالمی بینک، آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) اور ڈبلیو ٹی او (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اداروں کا مقصد عالمی معیشت کو مستحکم رکھنا اور ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ بھی عالمی معیشت کا حصّہ بن سکیں۔
مسلم اُمہ کی اقتصادی صورتحال بہت متنوع ہے۔ کچھ اسلامی ممالک خاص طور پر خلیجی ریاستیں جیسے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور ان کی معیشت عالمی سطح پر مضبوط ہے۔ ان ممالک نے اپنے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور تیل کی برآمدات کے ذریعے عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم بیشتر مسلم ممالک جیسے پاکستان، افغانستان، صومالیہ اور یمن کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہے، جن میں غربت، بے روزگاری اور قرضوں کا بوجھ شامل ہے۔
خلیجی ممالک جو دنیا کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں، عالمی اقتصادی نظام میں اپنی تیل کی پیداوار اور برآمدات کے ذریعے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سعودی عرب، قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی معیشتیں بڑی حد تک تیل پر منحصر ہیں۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ان ممالک کی معیشت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے نے خلیجی ممالک کو بے پناہ دولت فراہم کی، لیکن حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ان ممالک کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خلیجی ممالک اب تیل پر اپنے انحصار کو کم کرنے کے لیے مختلف شعبوں میں معاشی تنوع پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کا ’’ویژن 2030‘‘اسی تناظر میں ایک اہم منصوبہ ہے جس کا مقصد معیشت کو تیل سے ہٹ کر دیگر شعبوں میں ترقی دینا ہے، جیسے سیاحت، تجارت، اور صنعت۔بیشتر مسلم ممالک ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں آتے ہیں، جن کی معیشتیں کمزور ہیں اور انہیں عالمی اقتصادی نظام میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان ممالک کی معیشتیں زراعت، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل پر منحصر ہیں، لیکن صنعتی ترقی کی کمی اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ عالمی سطح پر زیادہ اثر و رسوخ نہیں رکھتیں۔ پاکستان ایک اہم مسلم ملک ہے، لیکن اسے بھی اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ، تجارتی خسارہ اور توانائی کے مسائل پاکستانی معیشت کے لیے چیلنجز بنے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے مالی امداد لینے کے باوجود پاکستان کی معیشت میں استحکام پیدا نہیں ہو سکا۔ بنگلہ دیش کی معیشت نے گزشتہ برسوں میں خاصی ترقی کی ہے، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں۔ تاہم، ملک کو غربت، آبادی کے دباؤ اور ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے جو اس کی ترقی کو محدود کرتے ہیں۔
مسلم دنیا میں اسلامی بینکنگ اور مالیاتی نظام کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسلامی بینکنگ ایک ایسا مالیاتی نظام ہے جو اسلامی اصولوں کے تحت چلتا ہے، جہاں سود (ربا) کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے اسلامی بینکنگ منافع اور نقصان کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ خلیجی ممالک اور ملائیشیا جیسے ممالک میں اسلامی بینکنگ کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے اور اب اسے عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اسلامی مالیاتی مارکیٹ بھی عالمی اقتصادی نظام کا حصّہ بن چکی ہے، جہاں اسلامی بانڈز (صکوک) اور دیگر مالیاتی مصنوعات متعارف کروائی گئی ہیں۔ یہ مارکیٹ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور مسلم ممالک کو عالمی مالیاتی نظام میں ایک مؤثر کردار ادا کرنے میں مدد دے رہی ہے۔
مسلم اُمہ کے بہت سے ممالک عالمی اقتصادی اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈبلیو ٹی او کے ساتھ منسلک ہیں، لیکن ان اداروں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ متوازن نہیں رہے۔ اکثر اوقات ترقی پذیر مسلم ممالک ان اداروں کی شرائط کے تحت قرضے لیتے ہیں، جن میں کفایت شعاری کے اقدامات اور اقتصادی اصلاحات شامل ہوتی ہیں۔ ان شرائط کی وجہ سے اکثر ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں مزید دباؤ میں آجاتی ہیں اور ان کی ترقی متاثر ہوتی ہے۔
عالمی تجارت میں مسلم ممالک کا کردار بھی اہم ہے، لیکن وہ اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ مسلم دنیا کی زیادہ تر معیشتیں قدرتی وسائل پر منحصر ہیں اور عالمی تجارتی منڈیوں میں صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیچھے ہیں۔ مسلم ممالک کو عالمی تجارتی منڈیوں میں اپنی شرکت بڑھانے کے لیے صنعتی ترقی، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ چین اور بھارت جیسے ممالک کی ترقی سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے عالمی تجارت کو کس طرح استعمال کیا۔مسلم اُمہ کو عالمی اقتصادی نظام میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں معاشی عدم استحکام، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط اور عالمی تجارتی منڈیوں میں پیچھے رہ جانا شامل ہے۔ تاہم ان چیلنجز کے باوجود مسلم دنیا کے پاس وسیع مواقع موجود ہیں، خاص طور پر قدرتی وسائل، نوجوان آبادی اور اسلامی مالیاتی نظام کے ذریعے۔ عالمی اقتصادی نظام میں مسلم اُمہ کی موجودگی مختلف چیلنجز اور مواقع سے بھری ہوئی ہے۔ مسلم دنیا کی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قدرتی وسائل کو دانشمندی سے استعمال کرے، صنعتی ترقی کو فروغ دے اور جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنا، اسلامی بینکنگ کو مزید مستحکم کرنا اور عالمی تجارتی منڈیوں میں اپنا کردار بڑھانا مسلم اُمہ کی اقتصادی خوشحالی کے لیے اہم عوامل ہیں۔ اگر مسلم اُمہ اپنے اندرونی مسائل پر قابو پا لے اور عالمی اقتصادی نظام کا مؤثر حصہ بن جائے، تو وہ عالمی سطح پر ایک مضبوط اقتصادی طاقت بن سکتی ہے۔(جاری)
رابطہ۔09422724040
[email protected]