حق بات تو یہی ہے کہ شادی قانون ِفطرت ہے، تسکین نفس کا حلال طریقہ اور افزائش نسل کا ذریعہ ہے، انسانی معاشرےکی بنیاد ، پیار ومحبت و دانستگی کی عمدہ مثال ہے۔ ظاہر ہے کہ شادی ایک نئی زندگی کی شروعات ہے،جو ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے ،نیا گھر آباد کرنے اور خاندان بڑھانے کی علامت ہے۔ اس لئے شادی بیاہ کے موقعہ پر دُلہا دُلہن ، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز واقارب دوست و احباب کا خوش و خرم ہونا فطری بات ہے۔لیکن دین اسلام نے جہاں انسانیت کی سیدھی راہ بتائی ہے وہیںاچھائی اوربُرائی میں تمیز کرنے اور عدل و اعتدال و میانہ روی کا سبق بھی دیا ہے۔اسلام نہ بخالت کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی فضول خرچی کا روادار ہے۔اسلام نکاح کو روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا ہے۔ اس لئے اس نے نکاح کو بہت آسان بنا کررکھ دیا ہے۔ ایجاب و قبول ، عورت کے لئے ولی کا ہونا ، کچھ مہر کی ادائیگی ، دو گواہوں کا ہونا، یہ نکاح کے بنیادی شرائط ٹھہرے ہیں۔اس کے لئے بھاری بھرکم اخراجات اُٹھانا ، شاہ خرچیاں ، بڑی باراتیں ، ٹھاٹھ باٹھ یا نام ونمود کے اظہار کی کوئی بھی شرائط موجود نہیں اور نہ اسلام فضول خرچیوں اور اسراف وتبذیر کی اجازت دیتا ہےبلکہ دین اسلام کی بنیاد اعتدال اور میانہ روی پر ہے۔ جبکہ شریعت مطہرہ میںاسراف اور فضول خرچی کی سخت وعیدیں آئی ہیں۔ شرعی حدود میں اظہار خوشی کی اجازت ہےتا ہم اظہار خوشی میں اسراف و فضول خرچی کرنا ،زیب وزینت پر ہزاروں لاکھوں روپے ضائع کرنا، بڑے بڑے شادی خانے لیکر سینکڑوں افراد کو دعوت دینا اور متنوع و ہمہ اقسام کے کھانے بنانا اور اس کو اپنی حیثیت اور وقار کا مسئلہ بنانا ، بے جا رسوم و رواج پر اوقات کو ضائع کرنا، رقص و سرور کی محفلیں سجانا، آتش بازی اور پٹاخوں اور غیر ضروری لائٹنگ میں پیسوں کو برباد کرنا، مہنگے سے مہنگے اسٹیج بنانا مسلمان کو زیب نہیںدیتا ہےاور نہ ہی ان امور سے کسی نئی زندگی کے شروعات میں خیر و برکت حاصل ہوسکتی ہے۔اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی والوں سے جبراً یامجبوراً جہیز کے زیر کرنا ،یا لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے والوں کے لئے بڑے بڑے مہر لکھوانے اور حاصل کرنے پر مجبور کرنا کسی بھی صورت میںجائز نہیںہے۔یہ عمل سنت و رحمت نہیں بلکہ زحمت و لعنت ہے۔ان امور پر ایک دوسرے کو مجبور کرنا کار ِخیر نہیں کارِ شر ہے۔ ہاں! اگر لڑکی والا اپنی حیثیت کے مطابق خوشی سے اپنی لڑکی کو دے رہا ہے تو اُسے قبول کیاجائے، اسی میں ثواب اور طریقۂ سنت ہےاور جو لڑکا اپنی حیثیت کے مطابق مہر ادا کرے ،وہ بھی فرض اور واجب ہے۔لیکن آج زیادہ تر شادی بیاہ کے ان معاملوں میں وہی کچھ ہورہا ہے،جو کہ خلافِ سنت اور حدودِ شرع سے متضاد ہوتا ہے۔شائد یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ آج کل شادی کے رشتے زیادہ دیر تک نہیں ٹکتے ہیں، میاں بیوی کے مابین معمولی باتوں پرطلاق اور خلع کی نوعیتیں پیدا ہوجاتی ہیںاور معاملات عدالت تک پہنچ جاتے ہیں اور پھروکلاءاپنی موٹی موٹی فیسیں حاصل کرنے کے لئے ہر وہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیںجس سے لڑکی والوںیا لڑکے والوں کے منشاء کے مطابق فیصلے آکر یہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔جس سے یہ بات اُبھر کر سامنے آجاتی ہے کہ شادی بیاہ کے زیادہ تر معاملات ،خلوص و محبت اور دانستگی پر طے نہیںکئے جاتےبلکہ کاروبار جیسی نوعیت کے تحت ہوجاتے ہیں اور اسی لئےجہیز کی لمبی فہرستیں اورلاکھوں مالیت کے مہر،نکاح خوانی میں اہم تقاضے بن چکے ہیں۔اس لئےضرورت ہے کہ دلہا دلہن ،والدین، بھائی بہن سنجیدگی سے غور کریں کہ شادی بیاہ کے معاملے میںجو کچھ وہ کررہے ہیں، کیا وہ صحیح ہے۔ کیاشادی جیسے مقدس رشتےمیں بندھنے کے لئے ہم دینی احکامات کو خاطر میں لاتے ہیں۔جبکہاسلام نکاح کو ایک فطری انسانی ضرورت سمجھ کر ، اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مرد اور ایک عورت کو قواعد وضوابط کی روشنی میں شادی کی بندھن میں باندھنے کیلئے سادگی کا ہی درس دیتا ہے۔ لیکن شادی بیاہ کے معاملے میں جو طرزِ عمل ہم نے شروع کردیا ہے ،وہ ہر صورت میں معاشرے میں اخلاقی انارکی اور بگاڑ پیداکرنے کا ضامن بن رہاہے اور معاشرے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں کے لئے ہلاکت خیزی و بربادی کے سوغات بن رہے ہیں۔