یو ٹی جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات تین مرحلوں میں کرانے کے اعلان کے فوراً بعد گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے سے جموں و کشمیرمیں جس طرح کی سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے ،وہ تا حال جاری ہے۔اگرچہ انتخابات کا پہلا مرحلہ رواں ماہ کی ستائیس تاریخ کو مکمل ہوچکا ہے تاہم دوسرا اور تیسرا مرحلہ یکم اکتوبر تک اختتام پذیر ہونے ولا ہے۔تمام سیاسی جماعتوں بشمول آزاد امیدواروں کی انتخابی سرگرمیاںبھی زور و شورکے ساتھ جاری ہیں۔بیشتر لوگ اپنی پسندیدہ جماعت یاامیدوارکے انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیںاور تمام جماعتوں کے لیڈران اپنی اپنی جماعت کے سیاسی منشور کے مطابق جموں وکشمیر کی بھلائی ،ترقی اور خوشحالی لانے کے لئے بحثیں اور دلیلیں پیش کررہے ہیںاور لوگوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے بڑے بڑے وعدے اور دعوے بھی کرتے چلے جارہے ہیں۔گویا انتخابی سرگرمیوں کے دوران جو کچھ پہلے سے ہوتا چلا آرہا ہے ،وہی سب کچھ آج بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔انتخابات کے بعد کون سی سیاسی جماعت برتری حاصل کرے گی ،حکومت کس کی بنے گی ،اقتدار کون سنبھالے گا اور پھر حکمرانی کے دوران اُن کے وعدے اور دعوے کہاں تک درست ثابت ہونگے،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔فی الحال ہم یہاںاگریونین ٹریٹری جموں و کشمیر کی موجودہ انتظامیہ جس کا عنقریب اختتام ہونے والا ہے،پر ہی نظر ڈالیںتوتا حال وہ بھی لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے کا دعویٰ کرتی چلی جارہی ہے۔بے شک وہ بعض اقدامات کر بھی چکی ہے ، کئی امور پر عملدرآمد کا کام جاری رکھی ہوئی ہے ، لیکن یو ٹی انتظامیہ کی ان کوششوں کے باوجود لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔کشمیرمیں امن و سکون کی صورت حال میں بظاہراگرچہ مثبت بہتری آئی ہے تاہم وادی کے عوام کو درپیش مسائل کی صورت حال وہی ہے جو تواتر کے ساتھ کئی عشروں سے چلی آرہی ہے۔ ساٹھ سال سے زیادہ مدت گذر نے کے بعد بھی کشمیری مسلسل یہاں کے تقریباً سبھی اداروں کی شکست و ریخت ،اصولوں کی پامالی ،استحصال ،غلامی اور کار فرما شخصیات کی نا رسائیاں اور خود غرضیاں دیکھ رہے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ،بدعنوانی ،ذلت اور رسوائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری ،مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کی ستم رسانیاں جاری ہیں۔حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ کشمیر کی تباہی ،پسماندگی ،لوٹ کھسوٹ اور رسوائی میں ملوث اکثر اشخاص اور ادارے ایسے ہیں جو آج بھی خود نگری سے محروم ہیں اور خود سری ،خود غرضی اور گمراہی میں اپنی خامیوں اور غلطیوںکو سدھار نے کے قائل نہیں بلکہ اپنی ہر غلطی اور کوتاہی کی ذمہ داری دوسروں کے سَر ڈال کر اطمینان کی زندگی گزاررہے ہیں۔انہوں نےمعاشرے کو مذلت میں پہنچادیا ہے مگرپھر بھی انہیں اپنی کوتاہی اور غلط روی کا احساس نہیں۔ جبکہ جائزہ لینے پر یہ بھی نمایاں ہورہا ہےکہ ساری تباہی کا سبب وہی عنصر ہے جو اپنی غلطیوں اور خامیوں کی اصلاح سے قاصر ہے ۔ظاہر ہے کہ بیروکریسی ہمیشہ ایسی قانون سازی کرتی ہے جس میں اُسے بے پناہ اختیارات حاصل ہوں اور بغیر کسی مداخلت کے من مانے اختیار سے ہی خرابی،بے راہ روی اور بد نظمی کی صورت حال فروغ پاتی ہے اوراگر اصلاح و احوال کی بھی کوشش کی جائےتواس میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بن جاتی ہے۔سرکاری مشینری کبھی بھی ایمانداری اورغیر جانبداری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکیں کیونکہ سرکاری انتظامیہ کا جو حصہ بدعنوانیوں اور رشوت ستانیوں کا عادی بن چکا ہو،وہ بدستور اپنی بد اعمالیوں اور کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالتا رہتا ہے۔ ارباب ِحکومت کو ان باتوں کی واقفیت ہوتی ہے لیکن وہ بھی اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لئے انہیں روکنے ٹوکنےنہیں۔اور اسی روش کے تحت بیشتر افراد کو ایسے عہدوں پر فائزکیا جاتا ہے ،جن کے وہ قابل ہی نہیں ہوتے ہیں۔چنانچہ جو لوگ اُن کے ماتحت کام کرتے ہیں ،وہ بھی اپنے ہی پیشروئوں کے نقش ِ قدم پر چلتے رہتے ہیں۔ یو ٹی انتظامیہ کے دوران بھی ایسے لوگ اپنے اعلیٰ عہدہ داروں اور دوسرے بیروکریٹوں کے آلۂ کار بن کر وہی سب کچھ کرتے رہے جو اُن کے پیشرو کررہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی اصلاح ِ احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہےاور ہر سرکاری شعبہ میں وہی کچھ ہورہا ہے جو عرصۂ دراز سے ہوتا چلا آرہا تھا۔خیر!انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کیا اس صورت حال پر قابو پاسکے گی؟ اس سوال کا جواب بھی آنے والے وقت میں مل جائے گا۔