ڈاکٹر عرفان رشید
افسانہ عصر حاضرکی ہر دل عزیز صنف ہے گرچہ یہ دور فکشن کا دور کہلاتا ہے لیکن اس میں افسانہ کو فکشن کی دیگر صورتوں میں تفوق حاصل ہے ۔اردو ادب میں بیسویں صدی کے آغاز میں متعارف ہونے والی اس صنف نے ترقی کی منزلیں بڑی تیزی سے طے کیں ۔نبیاد گزار افسانہ نگاروں نے اس صنف کوابتداء میں ہی جوان بنا کر پیش کیا ۔فن اور موضوع ہر دو سطح پر اِسے ایک مقام بخشا ۔ایسے افسانہ نگاروں میں خاص طور پر پریم چند اور یلدرم کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ پریم چند اور یلدریم اسکول نے اردو افسانے کو حقیقت اور رومان کا سبق پڑھایا ۔ انگارے کی اشاعت نے اس میں جدت پیدا کی ۔ ترقی پسند تحریک نے اسے ایسے فن کار وں سے نوازا جن کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ رقم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ تقسیم ہند نے افسانے کو دو اہم موضوعات عطا کیے :۔المیہ اور ہجرت ۔اُس دور میں جب پوری دنیا کا سیاسی ، سماجی اور معاشی منظر نامہ تبدیل ہورہا تھا ۔ ہر طرف نفسی نفسی کا عالم برپا تھا ،اس وقت تخلیق کاروں نے خارجی مسائل سے گریز کر کے انسان کے داخلی کرب کو ادب میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ۔ یہ رجحان جدیدیت کے نام سے موسوم ہوا اور ہمارے افسانے کی جو نئی شکل سامنے آئی وہ جدید اردو افسانہ تھا۔بعد میں مابعد جدید افسانے نے اس صنف کو آگے بڑھایا ہے ۔
جموںوکشمیر میں اردو فکشن کی ایک مستحکم اور شاندار تاریخ رہی ہے بلخصوص فنِ افسانہ نگاری کی ۔ادبی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتا تاہے کہ جموں و کشمیر میں ایسے افسانہ نگار بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس صنف میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے ادبی منظر نامے پر ایک گہری چھاپ قائم کی ہے ۔جن میں محمد دین فوق ،پریم ناتھ پردیسی، پریم ناتھ در،تیرتھ کاشمیری،سوم ناتھ ذتشی ،علی محمد لون ،قدرت اللہ شہاب،ٹھاکر پونچھی،پشکر ناتھ ،نور شاہ حامدی کاشمیری،وریندر پٹھواری،آنند لہر،دیپک بد کی، وحشی سعید،غلام نبی شاہد، ترنم ریاض وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔طارق شبنم کشمیر میں معاصر اردو افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک بہترین نام ہے جو تقریباً ہر ہفتے کشمیر عظمیٰ کے ادب نامہ میں ایک نئی تخلیق کے ساتھ چھپتے ہیں۔اصل نام طارق احمد شیخ ہے لیکن ادبی حلقوں میں طارق شبنم کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔انہوں نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز ۲۰۱۰ء میں افسانہ ’’مجبوری‘‘ سے کیا ہے یہ افسانہ ’’ہند سماچار ‘‘ جموں نے شائع کیا ۔اب تک ان کے متعدد افسانے رسائل و جرائد میں چھپ چکے ہیں ۔افسانوی مجموعہ ’’گمشدہ دولت ‘‘ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے ۔ اس مجمو عہ کوجی ۔این ۔کے پبلی کیشز(بڈگام ،کشمیر) نے ۲۰۲۰ء میں شائع کیا ہے ۔اس میں ۲۷ افسانے شامل ہیں جن میں بے درد زمانہ ، اندھیرے اجالے ، صدمہ ، کہانی کا المیہ ، دہشت کے سائے ، اعتبار ، گمشدہ دولت ، مسیحا کی تلاش ، نسخہ کیمیا ، سنہرا پھنداوغیرہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ افسانہ ’’بے درد زمانہ ‘‘ اس مجموعے کی پہلی کہانی ہے ۔ یہ کہانی ایک مچھیرن ’’سندری ‘‘ کی زندگی پر مبنی ہے ۔ افسانہ نگار نے اس کہانی کے ذریعے ایک طرف سماج پر طنز کیا ہے کہ کس طر ح سے ایک بے رحم سماج میںایک مجبور، لاچار اور بے بس عورت کا مزاق اُڑیا جارہا ہے ۔ دوسری طرف اس افسانے میں یہاں کے گورنمنٹ اسپتالوں کا حقیقی نقشہ بھی کھینچا گیا ہے جس میں ’’سندری ‘‘ جیسی سینکڑوں عورتیں استحصال کا شکار ہوجاتی ہیں ۔کہانی کی آخری دو سطور اس کہانی کا کلایمکس بیان کرتا ہے :
’’ اس بے درد زمانے میں ،میں اکیلی عورت بے سہارا عورت کیا کروں ۔ کس سے مدد مانگوں ، کہاں انصاف ڈھونڈوں ،یہاں صرف پتھردل انسان ہیں ، پتھر کے ضمیر ہیں ، چاپلوسی ، فریب ،حرص اور خودغرضی ہے ‘‘ (افسانہ : بے درد زمانہ )
اس اقتبا س سے کہانی کا روح مترشح ہوجاتا ہے کہ کس طرح سے موجودہ سماج میں انسان ہی انسانیت کا جنازہ نکالتاہے اور دنیا کے عقلمند اور دانش یافتہ لوگ اس چیز کالطف اُٹھا تے ہیں ۔ مذکورہ کہانی کا پلاٹ منظم اور سادہ ہے ۔ بیانیہ اسلوب کا خوبصورت امتزاج ، خودکلامی اور فلش بیک تکنیک کا استعمال ہوا ہے ۔ البتہ کہیں کہیں جملوں کی ساخت کمزور پڑ جاتی ہے لیکن اس سے کہانی کی معنوعت اور وحدت تاثر میں کو ئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوجاتی ہے ۔ افسانہ ’’اندھیرے اجالے ‘‘میں کشمیر کے موجودہ حالات و واقعات کی عکاسی کی گئی ہے ۔ اس افسانے میں علامت نگاری اور اشاروں اور کنایوں کی تکنیک سے کام لیا ہے ۔ منظر کشی اس طرح سے کی گئی ہے کہ کشمیر کا نقش آنکھوں کے سامنے رقص کرتا ہو ا نظر آتا ہے ۔ منظر کشی کے حوالے سے کہانی کا پہلا ہی اقتباس ملاحظہ کیجئے :
’’ارے واہ ۔۔۔کتنا حسین دل موہ لینے والا سماں ہے ۔یہ باغ یہ گلستان کتنا خوبصورت ہے ۔یہ رنگ بہ رنگے پھول ،یہ سر سبز پتوں والے درخت ، یہ ننھی منی کونپلیں ،یہ سبز مخملی چادر جیسا بچھونا ،یہ نیلے پانی کا جھرنا ،یہ فلک بوس دلکش پہاڑیاں ۔۔۔‘‘
اس افسانے میں طارق شبنم نے یہاں کے بزگوں،نوجوانوں اور بچوں کی نفسیات کو علامتی انداز میں پیش کیا ہے :
’’اس دلکش باغ کے سبھی پھول مرجھا کیوں گئے ہیں؟ شبنم میں نہلائے ہوئے اس گلستان کے سارے پھول اتنے اداس کیوں ہیں ؟ جیسے آنسوئوں میں ڈوبے ہوئے ۔۔ارے یہ کوئل ،یہ بلبل ،یہ بھنورے ،یہ ہد ہد اتنے خاموش اور اداس اور اکھڑے اکھڑے کیوں ہیں ؟
مندرجہ بالا اقتباس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح سے افسانہ نگار نے علامتی جامع میں یہاں کے عوام کی حقیقی زندگی کا آئینہ پیش کیا ہے ۔ ’’افسانہ صدمہ ‘‘میں بھی کشمیر کے آئے روز گولیوں اور لاشوں کا منظر نامہ پیش کیا ہے اور ’کاکا ‘جن کا اصلی نام محمد شفیع ہے جیسے سینکڑوں ایسے ہوں گے جو ان حالات و واقعات کا شکار ہوئے ہونگے ۔افسانہ’ دہشت کے سائے‘ میں بھی یہاں کے روز مرہ حالات و واقعات کا رونا رویا گیا ہے ۔ کشمیر کی ثقافت پر لکھا ہوا افسانہ ’آبرو‘ہے ۔جس میں ایک مفلوک الحال گھرانے کو موضوع بحث بنا گیا ہے ۔ اس افسانے میں ایک طرف قالین بننے کے کام کو دکھا یا گیا ہے تودوسری طرف اس وقت کے سماج کے سماج کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں پڑھائی کے مقابلے میں چھوٹے بچوں کو قالین بننے کے کام پر لگایا جاتا تھا ۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہاں کا عوام بہت دیر تک تعلیم کے نور سے دور رہا ۔
طارق شبنم کے یہاں موضوعاتی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف یہاں کے سیاسی ، سماجی ، اقتصادی اور معیشیت کو افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے بلکہ انہوں نے ایسے افسانے بھی خلق کیے ہیں جو بین الاقوامی وسعت رکھتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک افسانہ ’’اعتبار ‘‘ ہے ۔ حالانکہ افسانہ بیانیہ تکنیک میں لکھا گیا ہے ۔لیکن موضوعاتی اعتبار سے یہ ایک اچھوتا افسانہ ہے جس کی مثال خال خال ہی اردو افسانے میں نظر آئے گی۔ پورا افسانہ رومانوی اسلوب کی تار پود سے تیار کیا گیا ہے۔ افسانے میں ماجد اور ثمینہ کی داستان محبت کا بیان ہواہے ۔ ماجد اور ثمینہ بچپن سے لے کر بلوغت تک ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور کب ان کے درمیان محبت کا پھول کھل اُٹھا ۔دونوں کو پتہ ہی نہیں چلا ۔ دونوں ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں لیکن انٹرنس میں ناکام ہوجاتے ہیں جس کا سارا خمیازہ ماجد کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ثمینہ اس وجہ سے الگ ہوتی ہے انہیں ہر حال میں ڈاکٹر بننا ہے ۔آخر پر ثمینہ ڈاکٹر بن ہی جاتی ہے ۔ لیکن جب یہ خبر ماجد نے سنی اسے یقین ہی نہیں آیا ۔ اس نے جنرل لسٹ دیکھنے کے بعد جب ثمینہ کا نام categoty listمیں دیکھا تو اس کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔ کہانی کےآخری اقتباس میں کہانی کا روح چھپا ہو ا ہے ۔ (جاری)
رابطہ۔9622701102
[email protected]
���������������