سید عامر شریف قادری
کبھی کبھار انسان کو خود کی تلاش کے لیے جنگلوں، صحراؤں اور بیابانوں کا رخ کرنا چاہیے۔ ان جگہوں پر انسان کے دل، دماغ اور روح کو سکون میسر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو ڈھونڈنے اور سنوارنے کا موقع ملتا ہے۔
مختلف مذاہب کے دھرم پجاری دنیا کی حقیقت جاننے کے لیے اور اپنی ذات کی تلاش میں جنگلوں کی طرف نکلتے تھے۔ جب وہ سچائی سے آشنا ہوتے تھے تو واپس بستی کی طرف لوٹ آتے تھے اور اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے تھے اور اس طرح وہ لوگوں کو سچ اور جھوٹ، حقیقت اور فریب، فانی اور لافانی چیزوں کا فرق سمجھاتے تھے۔ اس طرح وہ لوگ تواریخ کے پنوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔اگر ہم کشمیر کے جنگلوں کی بات کریں تو یہ ہمارے اولیائے کرام کی میراث ہیں۔ ان جنگلوں سے بے شمار دینی بزرگ گزرے ہیں۔ وہ انہی جنگلوں میں بیٹھ کر عبادات اور ریاضت کیا کرتے تھے اور مختلف مواقع پر کشف و کرامات بھی انجام دیتے تھے۔
آج ہم آپ کو کشمیر کے اُس صوفی بزرگ اور شاعر سے متعارف کرواتے ہیں جو وسترون کے جنگلوں میں پروان چڑھا اور ایک روحانی شخصیت بن کر اُبھرا۔
عبدالوہاب (1842-1912)، جو وہاب خار کے نام سے مشہور ہیں، کا تعلق کشمیر کے ضلع پلوامہ کے علاقے کھریو (Khrew) کے گاؤں شار شالی(Shar Shali) سے تھا۔ ان کے نام کے ساتھ ’’کھار‘‘ ان کی ذات کو ظاہر کرتا ہے، جس کا مطلب کشمیری میں لوہار ہے۔ اگرچہ ان کے آباؤ اجداد لوہاری کے پیشے سے منسلک تھے، لیکن وہ خود زراعت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے شخص نے اپنی محنت اور لگن سے کس قدر بلند مقام حاصل کیا کہ آج ہر کوئی ان کے نام سے واقف ہے۔ بلاشبہ جو لوگ دل میں دین کا درد رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنی خاص عنایتوں سے نوازتا ہے اور وہاب خار اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔
کشمیر کا بچہ بچہ اس قول سے واقف ہے ۔
’’اَتہ ِچُھ وہاب کھار تہِ لاجواب‘‘۔(یہاں تو وہاب کھار بھی بے بس ہے)ہم اس قول کا اکثر استعمال کرتے ہیں جب ہم ایسی صورتحال میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے کوئی حل نکالنا مشکل ہوتا ہے۔یہ قول اس بات کی نشانی ہے کہ کس طرح اس صوفی بزرگ نے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔
وہاب کھار پیشے کے لحاظ سے ایک کسان تھے۔ ان کی کوئی رسمی تعلیم نہیں تھی، لیکن ان کی شاعری کا اخلاقی، متنوع اور صوفیانہ پیغام انہیں ایک ایسے بزرگ کے طور پر پہچان دلانے کا باعث بنا کہ ان کی زندگی میں ڈوگرہ مہاراجے اور عام لوگ یکساں عقیدت کے ساتھ ان سے ملنے آتے تھے۔وہاب صاحب زندگی بھر صوفیانہ عقیدت کی شاعری تخلیق کرنے میں مصروف رہے اور اکثر روحانی محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔وہ اپنے گھر پر موسیقی کی محفلیں منعقد کرتے تھے جن میں اُس وقت کے کچھ بڑے صوفی شعراء بھی شریک ہوتے تھے۔
اس کے علاوہ، وہاب صاحب اکثر اپنے مرشد اور ولی احمد صاحب مچامہ(Ahmad Sahab Machama) جو کہ سرہندی سلسلہ کے تھے، کی زیارت کے لیے بھی جایا کرتے تھے۔ ان کے ہم عصر دیگر صوفی شعراء جن کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے، میں شامل ہیں شمس فقیر، وازہ محمود، پرکاش رام، رضا صاحب، رحمان بھٹ اور صوفی شاعر رحیم صاحب سوپور۔ “Verses of Wahab Khar” وہاب کھار کی 36 نظموں (زیادہ تر غزلوں) کا شعری ترجمہ ہے، جسے مشتاق بی برق(Mushtaq B Barq) نے ترتیب دیا ہے۔
وہاب صاحب کی کئی غزلیں آج بھی لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ ان میں ’’ہا شیر سوارو‘‘، ’’با چھس درامژ یارس پتہ‘‘ اور ’’کم کم سلیمان آئی متیو‘‘ جیسی غزلیں خاص طور پر بہت مقبول ہیں۔ وہ بلا شبہ اپنی نوعیت کے ایک منفرد شاعر تھے، جنہوں نے تصوف کے پیچیدہ مضامین کو سادہ کشمیری زبان میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا۔ انہوں نے ’’معراج نامہ‘‘ اور ’’ماچھ تُلر‘‘ کے ذریعے بے پناہ توجہ حاصل کی، جنہیں ان کی بہترین منظوم تخلیقات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہاب کھار کا دل حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عقیدت سے لبریز تھا، اور انہوں نے معراج نامہ حضور نبی اکرمؐ کے آسمانی شرف اور عظمت کے اعتراف میں تحریر کیا۔؎
کَریو رونہِ رُومالے واو تاجدار سون معراجَس دراو
اَولَے نوران پرتَو پیَو اَد سون محمد ؐ پیدا گَو
سَر منَز پمپوش پھُلوُن دراو تاج دار سون معراجَس دراو
وہاب صاحب مکمل طور پر عشقِ الٰہی میں سرشار تھے اور صوفی ازم کے پیروکاروں میں بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے کشمیر کے اولیاء، شاعروں، فلاسفروں اور ادیبوں کے درمیان بے پناہ عزت، احترام اور شہرت حاصل کی۔ وہ اپنی روحانی عظمت اور کرامات کے لیے بے حد مشہور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شیر بھی انہیں سلام کرنے آتے تھے۔ ان کی کرامات میں سے ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک دن وہ اپنی گائے کے ساتھ جنگل کی طرف نکلے۔ جب وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، تو ان کی بیوی نے فکرمندی سے کہا، ‘ہم یہاں پانی کے بغیر کیسے رہیں گے؟ اس پر وہاب کھار نے اپنی لاٹھی زمین پر ماری اور فوراً وہاں سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا۔ آج تک لوگ اس چشمے کا پانی بیماریوں کے علاج کے لیے اپنے گھروں میں لے کر جاتے ہیں۔
(رابطہ۔7889714013)
وستروَؔن: وہاب کھارؔ کے تصوُّف کا مقامِ آغاز
