پیر محمد عامر قریشی
کشمیر وادی میں مصنفین کی ایک نئی نسل ابھر رہی ہے، جو کتابوں کے زوال پذیر شوق کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہر دن، یہ خطہ ایسے ہونہار قلمکاروں کی تخلیقات کا گواہ بنتا ہے جو اخبارات کے صفحات پر یا سوشل میڈیا پر اپنی جگہ بنا رہے ہیں، اس خواب کے ساتھ کہ وہ ادبی منظرنامے کو بدل دیں اور ‘کباب سے کتاب کی تبدیلی کا خواب پورا کریں۔ اس پس منظر میں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہ ہے کہ کیا وادی کے نوآموز مصنفین کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہوتے ہیں جب وہ اپنے من پسند پبلشنگ پیکج کا انتخاب کرتے ہیں؟ کیا الفاظ کا کتاب کی شکل میں ڈھل جانا واقعی انہیں ’’قابل اشاعت‘‘کا معزز لقب عطا کرتا ہے؟ یا وہ صرف موقع پرست پبلشروں کے منافع کی دوڑ میں محض مہرے بن کے رہ جاتے ہیں؟
بھارت کی پبلشنگ انڈسٹری ایک وسیع میدان ہے، جس کی قیمت 2019 میں 500 بلین سے زیادہ بھارتی روپے تھی۔ 2024 کے لیے اس کی مسلسل ترقی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، جس کا اندازہ تقریباً 781 بلین بھارتی روپے تک لگایا گیا ہے۔ اس بڑے میدان میںنئے مصنفین جو شائع شدہ مصنف بننے کے خواب دیکھتے ہیں، اکثر تجربے کی کمی کے شکار ہوتے ہیں۔ وہ اس شعبے کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور بعض اوقات دھوکہ دہی کے شکار بن جاتے ہیں۔
جب کشمیری مصنفین ادبی منظرنامے میں جان ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو پبلشنگ میں شفافیت اور انصاف کا مسئلہ ایک اہم تشویش بنی رہتی ہے۔ جب کہ ان مصنفین کی ادبی محبت چمکتی رہتی ہے، ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پبلشنگ کے پیچیدہ راستوں میں احتیاط کے ساتھ چلیں، تاکہ وہ بے ایمان پبلشروں کا شکار نہ بنیں۔
مصنفین اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ان کے ادبی کام کس حد تک پھیلائے جاتے ہیں، جہاں انہیں اشاعت سے پہلے مکمل رائلٹیز کا وعدہ کیا جاتا ہے، وہاں اشاعت کے بعد وہ اپنے کام کی ترسیل سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں، ہر کام اشاعت کے قابل نہیں ہوتا اور جو کتابیں کشمیری پبلشنگ ہاؤسز سے نکلتی ہیں، وہ غلطیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ ادبی دنیا میں اشاعت کے بعد اصلاحات کی کوئی
گنجائش نہیں ہوتی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سی کتابیں، چاہے ان کے سرورق جاذب نظر ہوں، اندرون میں ادبی معیار سے عاری ہوتی ہیں۔
اس غفلت کی ذمہ داری براہ راست ایڈیٹرز پر آتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا کسی نے واقعی ان کتابوں کا جائزہ لیا ہے؟ پبلشرز کو ماہر ایڈیٹرز کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں، جو مکمل علم کے حامل ہوں۔ ایڈیٹنگ کا کام ایک فرد کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لیے ماہر ایڈیٹرز کی ایک ٹیم درکار ہے۔ میرا کسی مخصوص پبلشنگ ہاؤس یا مصنف کے خلاف کوئی تعصب نہیں، لیکن یہ حقیقت عیاں ہے کہ محض منافع کے لیے غیر معیاری مواد کی اشاعت، ادبی معیار کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف قارئین کے وسائل کو ضائع کرتا ہے بلکہ کشمیری مصنفین کی کتابوں کے لیے شائقین کے ذوق کو بھی کم کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہی وہ اہم عنصر ہے جو بہت سے کشمیری مصنفین کی مارکیٹ میں محدود کامیابی کا سبب بنتا ہے۔
میں دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ کتابی جائزوں کے لیے ناقدین، تجزیہ نگاروں اور اخباری ایڈیٹرز سے مخلصانہ اپیل کرتا ہوں۔ یہ نہایت اہم ہے کہ پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ایڈیٹرز اس بات کا جائزہ لیں کہ آیا کوئی کتاب یا مصنف واقعی نمایاں ہونے کے قابل ہے۔ کشمیری پبلشنگ انڈسٹری کے ایڈیٹرز کو بھی اپنے فرائض سنجیدگی سے انجام دینے چاہئیں، مخطوطات کا جائزہ لیں، سرقہ (پلجریزم) کی جانچ کریں اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ کاموں کی نشاندہی کریں۔میں پُر امید ہوں کہ وہ وقت جلد آئے گا جب کشمیری مصنفین کی بہترین فروخت ہونے والی کتابیں کشمیر کے ادبی منظرنامے کو دوبارہ زندہ کریں گی۔ مجھے یقین ہے کہ میرے الفاظ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، کیونکہ یہ ایک خوبصورت وادی کی ادبی احیاء کی مخلصانہ خواہش سے اُبھری ہیں۔مصنف گاندربل سے تعلق رکھنے والے کالم نگار ہیں۔ ان سے رابطہ کرنے کے لیے ای میل کریں:
[email protected]