مشتاق احمد ملک ۔پونچھ
جموں و کشمیر کا پونچھ خطہ قدرتی حسن وجمال سے مالا مال ہے لیکن اس خوبصورت خطہ میں پانی کا بحران اب ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ آبی بحران کی بنیادی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی، پانی کے ذرائع کا خشک ہونا اور پانی کا غیر منظم انتظام شامل ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع اور بدلتے موسم کے باعث علاقے کے مکینوں کو پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جبکہ زندگی کی خوبصورتی اورانسانی صحت کو برقرار رکھنے میں صاف پانی کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ لیکن ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک لورن پنچایت لوہل بیلہ کے گاؤں بیلہ سیٹھی کے وارڈ نمبر 6 کے ساتھ اس کی پوری پنچایت لوہل بیلہ کی عوام اس عظیم نعمت سے محروم ہے۔اس سلسلے میں یہاں کے لوگوں کا یہی کہناہےاس پنچایت کا ہر وارڈ پینے کے پانی سے محروم ہے۔مقامی سماجی کارکن سرفراز احمد ملک کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو بارش اوربرف باری کے دوران گھر سے باہر جاکر کافی دوری سے پانی لانے میں بہت بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حالانکہ اس گاؤں کے اندرپائپ لائن بچھی ہوئی ہے لیکن وہ ٹوٹ پھوٹ کر خستہ حال ہوچکی ہےاور پانی کو لوگوں تک پہنچانےکے لئے کار آمد نہیں رہی ہے۔محکمہ پی ایچ ای کی جانب سے اسے ٹھیک کرنے کی کوئی کوشش نہیںکی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ گاؤں میںکوئی لائن مین بھی نہیں ہے جو پانی کی بحالی کویقینی بنائے۔جس کے نتیجے میں لوگوں کو ندی، نالوں اور جھرنوں سے پائپوں کو منسلک کر نا پڑتاہے۔ایک طرف سرکار جل جیون مشن کی اسکیم چلا رہی ہے،اس کا فائدہ تاحال دور دراز اور پسماندہ علاقوںکو نہیں پہنچ پا رہا ہےاور لوگوں کے لئے پینے کے پانی کا بحران کا مسئلہ دن بہ دن پیچیدہ بنتا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن رخسانہ کوثر کہتی ہیں کہ’’دراصل گذشتہ کچھ دہائیوں میں پونچھ میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے۔ زیر زمین پانی کے بے تحاشہ استعمال اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے پانی کے ذرائع خشک ہو رہے ہیں۔زراعت اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کے بے تحاشہ اخراج نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔پونچھ علاقے کے بہت سے دریا اور چشمے، جو کبھی پانی کے بڑے ذخائرہوا کرتے تھے، اب سوکھ چکے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ جہاں موسمیاتی تبدیلی اوربے قاعدہ بارشیں ایک بڑی وجہ ہیں تو وہیں دوسری جانب ہم انسانوں کی غلطیاں بھی اس کی ذمہ دارہے۔اس علاقے میں پانی کی ذخیرہ اندوزی کے مناسب نظام کا فقدان ہے۔ مون سون کے دوران دستیاب پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مناسب ٹیکنالوجی اورانفراسٹرکچر کا فقدان بھی شامل ہے۔
ان کے مطابق پونچھ خطہ میں پینے کے پانی کی کمی نے صحت کے مسائل کو جنم دیا ہے۔ لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس سے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کاشتکاری اور مویشی پالنا بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے علاقے کی معاشی حالت کمزور ہو رہی ہے۔ پینے کے صاف پانی کے لئے خواتین چشموں اور دیگر ذرائع کی کھوج میں میلوں پیدل چلتی رہتی ہیں،جس سے ایک جانب ان کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا ہے ، دوسری جانب جنگلی جانوروں کے حملہ کا خوف بھی رہتا ہے۔بعض اوقات مقامی لوگ ریچھوں کو بھی گھو متے ہوئے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں خواتین پینے کے پانی کا انتظام کیسے کریں،یہ ایک بہت بڑا سوال بن گیا ہے۔
ایک مقامی خاتون منیرا بیگم کا کہنا ہے کہ میں اس گاؤں میں 35 سالوں سے رہ رہی ہوں، گاؤں کی لڑکیوں کو میلوں دور سے پانی لانا پڑتا ہے، جس کی شکار میں بھی ہوں۔ ہمارے گاؤں میں ابھی تک جل جیون مشن کی اسکیم کے تحت نہ کسی گھر میں نل لگاہے اور نہ تو یہاں کوئی پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔اس سلسلے میں مقامی نمبردار ذاکر حسین مسائل کا حل بتاتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ پانی کے بحران کے حل کے لیے مختلف اقدامات کئے جا نے کی ضرورت ہے۔جس میں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور زمینی پانی کو ری چارج کرنے کے لیے تالاب، آبی ذخائر اور چیک ڈیم جیسے ڈھانچے بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سے آبی وسائل کا صحیح استعمال ممکن ہو سکے گا۔وہیں پانی کے ذرائع کا پائیدار اور اجتماعی انتظام بھی ضروری ہے۔ مقامی آبادیوں کو آبی وسائل کے تحفظ اور صحیح استعمال کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔ساتھ ہی شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے پانی کی فراہمی کے لیے پمپ اور دیگر آلات نصب کئےجا سکتے ہیں۔ اس سے بجلی کی کھپت کم ہوگی اور پانی کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔اس کے علاوہ درخت لگانے اور جنگلات کے تحفظ سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔جنگلات کے رقبے میں اضافہ، بارش کی مقدار اورگرمی کی شدت کومتوازن رکھنے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
درحقیقت، پونچھ خطے میں پانی کا بحران ایک پیچیدہ مسئلہ بنتا جا رہاہے، جس کے حل کے لیے ہم صرف حکومت اور مقامی انتظامہ پر ذمہ داری ڈال نہیں سکتے ہیں بلکہ اس کیلئے مناسب اقدامات کرنے کے لئے سماج کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت جہاں جل جیون مشن کے تحت دیہی علاقوں کے ہر گھر تک پینے کے صاف پانی کی دستیابی کی کوشش کر رہی ہے وہیں اگرسماجی طور پر ہم بھی کوشش کریں اور وسائل کا صحیح استعمال کریں تو اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔(چرخہ فیچرس)