ارشاد احمد۔ پونچھ
ہندوستان میں بجلی کی قلت ملک کے دیہی اور شہری دونوں علاقوں کو متاثر کرنے والا ایک سنگین مسئلہ ہے۔اس کی عدم دستیابی سے نہ صرف زندگی کی عام سہولیات متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کا براہ راست اثر معاشرے کے مختلف شعبوں پر بھی پڑتا ہے۔آج بھی ہمارے ملک کے کئی ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں لوگوں کو بجلی کی بہتر سہولیات میئسر نہیں ہے۔ان میں خطہ جموں کی تحصیل منڈی کے گاؤں بایلہ بھی ایک ہے۔ جہاں آج بھی لوگ بجلی کی بہتر سہولیات سے محروم ہیں۔ مقامی رہائشی عبد الصمد گذشتہ 75 سال سے گاؤں بایلہ میں رہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق علاقے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جس وقت ہمیں بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اسی وقت بجلی کو کاٹ لیا جاتا ہے۔ بجلی نہ ہونے سے صحت بھی متاثرہوتی ہے۔ ہسپتالوں میں ضروری آلات چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے مریضوں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اندھیرے میں پڑھنے سےبچوں کی بصارت اور دماغی صحت پر منفی اثر پڑرہا ہے۔ جس وقت رات میں بچے گھر میں خود پڑھائی کرتے ہیں ٹھیک اسی وقت بجلی چلی جاتی ہے۔ ہمارے پاس روشنی کے لئےکوئی دوسری سہولت موجود نہیں ہے۔ جیسے سولر لائٹ، انویٹر وغیرہ۔ہم سیل فون، یا لالٹین،مومبتی جیسی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ آج کے دور میں بجلی کے بغیرزندگی گزارنا ممکن ہے؟ مقامی باشندہ عبد الکریم کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے صنعتوں اور کاروباری اداروں کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ کارخانوں میں پیداوار میں کمی ہے جس سے مزدوروں کی آمدنی متاثر ہوتی ہے۔ چھوٹے کاروباروں کو بھی اس بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ بجلی کے بغیر ان کے کام ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ زراعت کا شعبہ بھی بجلی کی قلت سے متاثر ہے۔ کسانوں کو آبپاشی کے لیے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ بقول ان کے ہمارے گاؤں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے آج تک بجلی کا کام مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ ہمارے گاؤں بایلہ سے تقریباً تین کلومیٹر کی دوری پر سُرما ڈھوک ہے جس میں ہم گرمیوں کے چھ ماہ گزارنے کے لئے جاتے ہیں وہاں پر بھی ہمیں بجلی کی بہت ضرورت ہوتی ہے لیکن آج تک نہ تو وہاں پر بجلی کے کھمبے اور نہ ہی ترسیلی لائنیں لگی ہیں۔ راشد لطیف جن کی عمر 25 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ بجلی نہ ہونے سے گھریلو زندگی بھی بری طرح متاثر ہے۔ بجلی کے بغیر لوگ گرمیوں میں پنکھے اور کولر جیسی ضروری اشیاء استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے علاوہ رات کے وقت گھروں میں روشنی کی کمی بھی سیکورٹی سے متعلق مسائل کو بڑھا دیتی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن ریحانہ کوثر کا کہنا ہے کہ بجلی کی عدم دستیابی تو پورے پونچھ ڈسٹرکٹ میں ہے۔ لیکن منڈی تحصیل کے مختلف گاؤں بایلہ،فتحپور، کہنو، کلانی، سلونّیاں، ستھرا، گلی ناگ، تمرا وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام گاؤں میں بیشتر اوقات بجلی نہیں ہوتی ہے۔وہیں جب ان گاؤں کے لوگ سٹور پرراشن لینے کے لئے جاتے ہیں تو وہاں کے گورنمنٹ سیل ڈیپو میں بجلی آتی جاتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ڈیپو کے اندر انگوٹھا لگانے والی مشین کی بیٹری ختم ہو جاتی ہے۔جس سے مشین پر انگوٹھا نہیں لگ پاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ آج کل سب کچھ آن لائین ہو گیا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا کام نہیں ہو پاتا ہے۔ ان کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو دوسرے دن پھر سے راشن لینے کے لئے آنا پڑتا ہے۔جس سے مزدور وں کا وقت برباد ہوتا ہے۔ بجلی کی قلت کے اس بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے تمام شعبوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے سولر انرجی، ونڈ انرجی اور ہائیڈرو پاور جیسے متبادل توانائی کے ذرائع کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کی بچت کے اقدامات کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ محدود وسائل کا صحیح استعمال کیا جا سکے۔بہرحال،بجلی کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے جو عوامی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔خصوصاً ملک کے دیہی علاقوں میں یہ ایک بہت سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرنے اور اسکیم کو جلد نافذ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کی مجموعی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔ (چرخہ فیچرس)