رئیس یاسین
قوموں کا عروج و زوال تعلیم سے وابستہ ہوتا ہے۔ افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعے ہی اپنے نصب العین، مقاصد حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ اقوام و ملک کی ترقی کا راز اسی میں پنہاں ہے۔ جہالت کے اندھیرے سے نکل کر علم و عرفان کے راستوں پر ان کے قدم چلنے لگتے ہیں، نیکی اور برائی کی تمیز اور نیکی کو اپنانے اور برائیوں سے بچنے کا شعور پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کا حاصل کرنا ہر مسلم مرد و عورت پر فرض ہے۔ اسلام نے انسان کی امتیازی خصوصیات میں علم کو شمار کیا ہے۔ رسول رحمتؐ کو خدائے ذوالجلال نے انسانوں کے لیے معلم بناکر مبعوث فرمایا اور آپؐ نے انسانی زندگی میں جو انقلاب برپا کر دیا، وہ تعلیم ہی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ احادیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایک عالم سو عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔ آں حضورؐ نے مکہ مکرمہ میں ’’ دارارقم ‘‘ اور مدینہ منورہ میں ’’ صفہ‘‘ کے مدارس قائم کر کے صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا۔ گویا تعلیم کی افادیت و اہمیت ہمیں ہر جگہ ملتی ہے۔ جہاں پر بھی ہم کوئی ترقی یا روشنی کی کرن دیکھتے ہیں وہ سب صرف اور صرف تعلیم کے بدولت ممکن ہوئیں ہیں۔ تعلیم سے انسان کو دنیا میں وہ مقام ملتا ہے جس سے وہ اپنے معبود کو پہچان پاتا ہے۔ تعلیم کی اس اہمیت کا احساس اس قوم سے بہتر اور کس کو ہوگا جس قوم کے افراد پر علم کا حصول فرض قرار دیا گیا ہو۔ اسلام کے ماخذ یعنی قرآن و حدیث میں ہمیں جگہ جگہ حصول علم کی تلقین ملتی ہے اور تعلیم و تربیت اور درس و تدریس کو دین اسلام کا جزولا ینفک قرار دیا گیا ہے۔
علم کے حصول کی راہ ’’تعلیم‘‘ ہے۔ جو عربی زبان کے لفظ ’’علم‘‘ سے ہی مشتق ہے جس کے معنی آگاہی حاصل کرنے کے ہے۔ مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں جس تعلیمی نظام کو فروغ بخشا تھا، وہ تعلیم اور تربیت، دونوں کا منظم کرتا تھا۔ اس نظام میں کلیدی اہمیت انسانوں کو یعنی طلباء اور اساتذہ کو حاصل ہوتی ہے۔ تعلیم انسان کی ان بے شمار صلاحیتوں کو جو اس کو خالق حقیقی نے عطا کی ہیں پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے کا عمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی سیرت و کردار کی تعمیر و تشکیل ہے اور اس کی تمام صلاحیتوں کے اظہار اور ہمہ پہلو نشونما کے نتیجے میں اس کی شخصیت کی تکمیل ہے تاکہ وہ معاشرے کے لیے ایک کارآمد اور فائدہ مند ثابت ہو۔ تعلیم کے وسیع معنی یہ ہیں کہ انسان کو مہد سے لحد تک جو معلومات اور تجربات حاصل ہوں، وہ سب تعلیم میں شامل ہیں۔
حصول تعلیم کے بارے میں شرق و غرب میں مختلف طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں نیز ہر ملک اپنی روایات اور سماجی رسوم و رواج تعلیم کے ذریعے ہی اپنے آنے والے نسلوں تک منتقل کر دیتا ہے۔ تعلیم کسی خاص طبقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سماج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد تعلیم اور نظام تعلیم سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے جب تعلیم کی تعریف کی جاتی ہے، تو زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس کو اپنے اپنے زاویے سے واضح کرتے ہیں۔ اس طرح کثرت تعریف کی وجہ نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ہے۔ کہیں دینی علماء، کہیں متکلمین، کہیں اہلِ منطق، کہیں حکماء اور کہیں تصوف تعریف کو متعین شکل دینے میں کار فرما ہوا ہے۔ ذیل میں شرق و غرب سے تعلق رکھنے والے چند مقتدر علماء اور مفکرین کی علم و تعلیم کی اور اس کی تعریف کے بارے میں چند اقوال نقل کیے گئے ہیں۔
امام زہری فرماتے ہیں کہ ’’ علم سے بہتر کوئی طریقہ نہیں جس سے عبادت الہی ممکن ہو۔‘‘شاہ ولی اللہ نے ’’ تعلیم کو خیر و شر میں تمیز کر کے شر کو دبانے کا عمل قرار دیا ہے۔ ‘‘
امام غزالی فرماتے ہیں کہ ’’تعلیم انسانی معاشرے کے بالغ ارکان وہ جدوجہد ہے جو آنے والی نسلوں کی نشو نما اور تشکیل زندگی کے نصب العین کے مطابق ہو۔ میری نگاہ میں علم کا مقصد انسان کے لیے سعادت ابدیہ کا حصول ہے۔‘‘ابن خلدون کہتے ہیں کہ ’’تعلیم غور و فکر کے ذریعہ انسان کو حقائق سے روشناس کراتا ہے۔ ‘‘علامہ اقبال نے تعلیم کو تعمیر خودی اور تکمیل خودی قرار دیا ہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو دین کی روشنی میں انسان کی طبعی قوتوں کی نشونما ہے۔
نعیم صدیقی فرماتے ہیں ’’تعلیم وہ عمل ہے جس کے ذریعہ ایک نسل اپنی حاصل کردہ معلومات، تجربات، عملی مہارتوں اور اپنے عقائد و اطوار کو نو خیز نسل کی طرف منتقل کرتی ہے۔ تعلیم انسان کی ہمہ جہت نشونما کا بنیادی ذریعہ ہے جو انسان کی خفیہ اور خداداد صلاحیتوں کو صیحح سمت دیتی ہے جس کے ذریعہ صلاحیتیں بروئےکار آسکیں۔ ‘‘
موہن داس کرم چند گاندھی تعلیم کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’تعلیم سے میری مراد بچے اور بالغ آدمی کے جسم، ذہن اور روح میں موجود صلاحیتوں کو باہر لانے سے ہے۔ ‘‘ اسی کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ،’’ اصل تعلیم وہ ہے جو بچے کی جسمانی، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کو اندر سے باہر لائے اور ان میں نکھار پیدا کرے۔ ‘‘جان ملٹن تعلیم کی تعریف یوں کرتا ہے ’’ میرے نزدیک مکمل اور شریفانہ تعلیم وہ ہے جو انسان کو بحالت جنگ و امن اپنی اجتماعی و نجی زندگی کے فرائض دیانت و مہارت اور عظمت کے ساتھ ادا کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ ‘‘امریکی فلاسفر جان ڈیوے کہتا ہے کہ ’’تعلیم افراد اور فطرت سے متعلق بنیادی طور پر عقلی اور جذباتی رویوں کے تشکیل پانے کا عمل ہے۔ ‘‘ وہ اسے تجربے کی مسلسل تعمیر نو اور تنظیم نو کا نام دیتا ہے۔ ‘‘ایڑیسن کے بقول ’’ تعلیم انسانی روح کے لئے سنگ مر مر کے ٹکڑے کے لئے سنگ تراشی کے مانند ہے۔ ‘‘
انسانی تاریخ اس چیز کی گواہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی و ترویج میں تعلیم ایک کار گر ہتھیار کے مانند رہی ہے۔ لیکن دنیا کی زمام کار جب سے مغرب کے ہاتھ میں آئی تو تعلیم کے وسیع دائرے کو محدود کر دیا گیا اور اس کا حصول معاش سے جوڑ کر ایک مادہ پرستانہ نقطہ نظر کو پیدا کیا گیا، جس کی وجہ سے تعلیمی نظام کے ذریعے سے مختلف قسم کے فنکار اور ماہر تو پیدا ہو گئے لیکن اخلاق کریمانہ کے حامل وہ انسان ناپید ہوگئے۔ مغرب کے اکثر ماہرین تعلیم اور علمائے عمرانیات یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ تہذیب و تمدن کی ترقی اور ثقافت کے تحفظ کی راہ میں تعلیم کا یہ مادہ پرستانہ نظریہ اقوام و ملک کا بنیادی پتھر ہی ہلا کے رکھ دے گا اور تہذیب و تمدن کی عمارت ترقی سے ہمکنار ہونے کے بجائے زوال کا شکار ہو جائے گئی۔
رابطہ ۔:7006760695
[email protected]
������������