اسد مرزا
برطانیہ کی ہوم سکریٹری یعنی کہ وزیرِ داخلہ Yvette Cooper نے خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے ملک کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کا جائزہ لینے، موجودہ قوانین میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنے اور ساتھ ہی ابھرتے ہوئے نسلی نظریات کا مطالعہ کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے ایک نیا حکم جاری کیا ہے۔ روزنامہ دی ٹیلی گراف کے مطابق یہ اقدام خواتین کے خلاف تشدد کو دائیں بازو کی انتہا پسندی کے دائرے میں شامل کرے گا۔اس تجویز کے تحت، اسکول کے اساتذہ کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ ایسے طلبا کو حکومت کے انسداد دہشت گردی پروگرام کے تحت نشانہ زد کریں جن کے بارے میں انھیں شبہ ہے کہ وہ نسلی بدتمیزی یا زن دشمنی پھیلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی مقامی پولیس کسی بھی ایسے شخص کی تفتیش کرسکتی ہے جسے اس پروگرام کے تحت نشان دہ کیا گیا ہے، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ بنیاد پرستی کے آثار ظاہر کرتے ہیں اور انہیں ڈی ریڈیکلائز کرنے کی ضرورت ہے۔دی ٹیلی گراف کے ساتھ بات کرتے ہوئے، کوپر نے پچھلی کنزرویٹو حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی (Prevent پریوینٹ ) پر اپنائی گئی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ’’بہت طویل عرصے سے، حکومتیں آن لائن اور ہماری سڑکوں پر انتہا پسندی میں اضافے کو روکنے میں ناکام رہی ہیں، اور ہم نے دیکھا ہے کہ آن لائن پر سوشل میڈیا کے ذریعہ بنیاد پرست نوجوان ہر قسم کی نفرت انگیز اشتعال انگیزی کے ذریعے ہماری کمیونٹیز اور ہماری جمہوریت کے تانے بانے کو تباہ کر رہے ہیں۔‘‘
کوپر نے مزید کہا:’’حالیہ برسوں میں انتہا پسندی کے خلاف کارروائی کو بری طرح کھوکھلا کر دیا گیا ہے، جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہونی چاہیے تھی۔ اسی لیے میں نے ہوم آفس کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتہا پسندی پر تیز رفتار تجزیاتی جائزہ مکمل کرے، تاکہ شدت پسندی کے رجحانات کا نقشہ بنایا جا سکے اور اس کی نگرانی کی جا سکے۔ اس بات کے شواہد کو سمجھنے کے لیے کہ لوگوں کو انتہا پسندانہ خیالات سے دور کرنے کے لیے حکومت کو کیا کام کرنا ہے، اور موجودہ پالیسی میں کسی ایسے خلاء کی نشاندہی کرنا جو نقصان دہ اور نفرت انگیز عقائد اور تشدد کو آگے بڑھانے والوں کے خلاف کارروائی میں مدد گار ثابت ہوسکے۔‘‘
یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ ماہ ایک سینئر پولیس اہلکار نے خبردار کیا تھا کہ اینڈریو ٹیٹ جیسے افراد جو سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرتے ہیں،ٹھیک اسی طرحجس طرح دہشت گرد اپنے پیروکاروں کو اپنے نفسیاتی جال میں پھنساتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے اوائل میں، برطانیہ کی نیشنل پولیس چیفس کونسل نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں اسے ’’قومی ایمرجنسی‘‘ قرار دیا گیا تھا۔اس جائزے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اساتذہ کو قانونی طور پر ایسے شاگردوں کو نشان زد کرنے کی ضرورت ہو گی جن کے بارے میں انھیں شبہ ہے کہ وہ نسلی دشمنی یا خاتون دشمنی کے آثار ظاہر کرتے ہیں۔ اور پھر انھیں حکومت کے انسداد دہشت گردی پروگرام (پریونٹ) کے تحت نفسیاتی دیکھ بھال کے لیے بھیجا جائے گا۔
کیمبرج ڈکشنری کے مطابق، misogynist سے مراد عورتوں سے نفرت کے جذبات یا یہ عقیدہ ہے کہ مرد عورتوں سے بہت بہتر ہیں۔
Prevent کو 2005 میں اس وقت کی لیبر حکومت نے 9/11 کے بعد مسلم کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے پریونٹ پالیسی کے طور پر متعارف کرایا تھا۔ اس حکمت عملی نے 2005 میں، 7/7 کے بعد ایک اور رسمی شکل اختیار کرلی تھی۔کوپر نے پہلے کہا تھا کہ گزشتہ حکومت کی انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملی نو سال پرانی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ یہ جائزہ لیبر کے لیے اپنے منشور کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بنیاد رکھے گا جو لوگوں کو نفرت انگیز نظریات کی طرف راغب ہونے سے بچا سکے گا۔یہ نئی تجویز نفرت انگیز انتہا پسندی کے عروج اور آن لائن پر خطرناک مواد کے پھیلاؤ سے نمٹنے کی ضرورت کے بارے میں پولیس اور سابق حکومتی مشیروں کی طرف سے ایک دہائی کے انتباہات کے بعد آیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ڈیم سارہ خان، جو اس سال مئی تک سابق وزیر اعظم رشی سناک کی سماجی ہم آہنگی کی آزاد مشیر تھیں اور اس سے قبل تھریسا مے اور بورس جانسن کے ماتحت انھوں نے انسداد انتہا پسندی کمشنر کے طور پربھی کام کیا تھا، انھوںنے اخبار گارڈین کو بتایا کہ ٹوری حکومت نے برطانیہ میں سماجی مسائل کو بالکل نظرانداز کر دیا تھا اور اس سلسلے میں برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے گزشتہ پندرہ سالہ اقتدار کے دوران دائیں بازو کے عناصر کے دباؤ میں کافی تیزی آئی ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت بدامنی پھیلانے یا دہشت گردانہ نظریات کے پھیلاؤ پر توجہ دے رہی ہے یا نسلی منافرت کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہونے والے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے خطرے پر۔ ان تینوں مسائل سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ کار اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، جبکہ ان کو ایک ساتھ جوڑ کر ہوم سیکریٹری شاید وہی طریقہ اپنا رہی ہیں جو کہ ان سے پہلے کی حکومتوں نے اختیار کیے تھے۔ مزید یہ کہ اس تجویز سے معاشرے کو مزید مربوط بنانے کے بجائے اس میں معاشرے کو مزید بکھرانے اور نفرت پھیلانے کے امکانات زیادہ ہیں۔دراصل حکومت کی طرف سے یہ تجویز اس وقت آئی ہے جب پچھلے ماہ پورے برطانیہ میں بڑے پیمانے پر نسلی تشدد دیکھنے میں آیا جس کی وجہ ساؤتھ پورٹ نامی شہر میں تین لڑکیوں پر جان لیوا حملہ تھی۔جوکہ ایک ایسے لڑکے نے کیا تھا جس کا نام مسلمان ناموں سے مشابہت رکھتا ہے اور اس حملے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلم مخالف تشدد میں کافی تیزی آئی۔
سرکاری اہلکار “نظریاتی رجحانات” کے ساتھ ساتھ “اسلام پسند اور انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی کے عروج” کا بھی جائزہ لیں گے جس سے کہ سماج میں بدامنی پھیلائی جاسکتی ہے۔ اس نئی تجویز کا مقصد نوجوانوں کے آن لائن اور آف لائن دونوں طریقے سے بنیاد پرستی کے اسباب اور طرز عمل کا بھی جائزہ لینا ہے۔حکومت نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ 2015 کے بعد سے کوئی نئی انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملی عمل میں نہیں آئی ہے، اور یہ کہ اب ہمیں نئے اور ابھرتے ہوئے خطرات کا بھی جائزہ لینا ہے۔اگرچہ لیبر حکومت کا یہ اقدام خوش آئند ہے، لیکن ساتھ ہی ‘بدانتظامی’ کے لیے اپنایا جانے والا نقطہ نظر اچھی طرح سے سوچا سمجھا نہیں گیا ہے۔ بدگمانی کو دہشت گردی یا بنیاد پرستی سے جوڑنا معاملہ کو بہت دور لے جاتا ہے اور اس سے نمٹنے کے طریقوں پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔
پریونٹ کے ناقدین طویل عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ حکمت عملی صرف ایک کمیونٹی یعنی صرف مسلمانوں پر مرکوز ہے اور اس کے علاوہ اس نقطہ نظر کو اپنانے سے کوئی ٹھوس فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے، بلکہ اس نے مسلم کمیونٹی کو مزید حاشیہ پر تنہا کھڑا کردیا ہے، جبکہ اس کا مقصد انتہا پسندوں یا دہشت گردوں کی نشان دہی کرکے ان کی اصلاح کرنا تھا۔ مزید برآں، سوشل میڈیا کے ذریعہ بدگمانی کا پھیلاؤ ایک سماجی اور عالمی مسئلہ ہے اور اس کے پھیلاؤ کا اصل مجرم آن لائن پلیٹ فارم یعنی کہ فیس بک ، ٹوئٹر ، انسٹا گرام یا اسی طرح کے دوسرے ایپس ہیں۔ لہٰذا، بہتر ہوتا کہ حکومت اس مسئلے پر ایک جامع نقطہ نظر اپناتی اوراسکولوں سے رپورٹ شدہ کیسوں کو پولیس تک لے جانے کے بجائے، اسکول کی سطح پر ہی ان طالب علموں کی نفسیاتی کونسلنگ کے ذریعے اصلاح کی جاتی۔مزید یہ کہ حکومت کو سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ کے بڑھتے ہوئے خطرات کو زیادہ سنجیدگی سے سنبھالنے کی ضرورت ہے اور اسے جلد از جلد ایک ایسا قانون لانے کی کوشش کرنی چاہیے جوکہ نفرت پھیلانے والوں کے لیے اپنے مذموم نظریات کو پھیلانے کے لیے اس میڈیم کو استعمال کرنا مزید سخت بناسکے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)